افغانستان میں خواتین کارکنوں پر پابندی امدادی منصوبوں کے لیے ’دھچکا‘
افغانستان میں خواتین کارکنوں پر پابندی امدادی منصوبوں کے لیے ’دھچکا‘
منگل 31 جنوری 2023 7:39
عمر عابدی کا کہنا تھا کہ افغانستان قحط کے قریب پہنچ گیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی اہم انسانی امداد کے منصوبوں کے ’بہت بڑا دھچکا‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفھس نے پیر کو نیوز کانفرنس میں کہا کہ ‘اگر طالبان اپنے حکم میں استثنٰی کی گنجائش پیدا نہیں کرتے تو یہ تباہ کن ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفد جس میں بین الاقوامی امدادی گروپس شامل ہیں، نے افغانسان کے وزرائے خارجہ و خزانہ سمیت دیگر نو حکام کے ساتھ ملاقات میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ خواتین انسانی امداد کے پروگراموں میں خواتین کی شرکت بہت اہم ہے۔
’ہمیں کہا گیا کہ آپ کچھ انتظار کریں، خواتین کی امدادی کاموں میں شرکت کے حوالے سے طالبان حکام اصول وضع کر رہے ہیں جن سے آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کی جانب سے مسلسل یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ خواتین کے لیے کام کی گنجائش ہو گی جو کہ بہت اہم ہے۔‘
مارٹن گریفتھس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’طالبان کی جانب سے 24 دسمبر کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے بعد خواتین کو امدادی گروپس میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ محکمہ صحت میں خواتین کو استثنٰی دیا گیا اور پرائمری تک سکول تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔‘
مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب یقین دلایا گیا ہے کہ پابندی نرم کی جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)
ان کا کہنا تھا کہ وفد نے طالبان حکام پر واضح کیا کہ اگر وہ اپنے حکم نامے کو منسوخ نہیں کرنا چاہتے تب بھی انسانی ہمدردی کے تمام کاموں کا احاطہ کرنے کے لیے ان استثنات کو بڑھانا چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کسی واضح اقدام کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھتے ہیں کہ طالبان کے وہ اصول سامنے آئیں اور وہ کس حد تک مفید ہیں اور یہ بھی کہ ان میں خواتین کو امدادی منصوبوں کے لیے کام کرنے کے حوالے سے کتنی گنجائش دی جاتی ہے۔‘
خیال رہے اگست 2021 میں تقریباً 20 سال بعد نیٹو افواج کے نکلنے کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا اور اس وقت انہوں نے دنیا سے جو وعدے کیے تھے ان کے باوجود خواتین پر بندشیں لگائی گئی ہیں جن میں خواتین کے کام کرنے اور پرائمری کے بعد لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی بھی شامل ہے۔
طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں کیونکہ امدادی اداروں کی جانب سے امدادی رقوم بھی روک دی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے ڈپٹی ایگریکٹیو ڈائریکٹر عمر عابدی، جو کہ وفد میں شامل تھے، کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 60 لاکھوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور وہ قحط سے زیادہ دور پر نہیں۔
’اس صورت حال کی وجہ دے آتھ لاکھ 75 ہزار بچوں کو مناسب نشوونما نہ ملنے کے خدشات موجود ہیں، اسی لیے امدادی کاموں کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔‘
انہوں نے کچھ مثبت چیزوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کی جانب سے پرائمری کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر لگائے جانے کے بعد بھی لڑکیاں سیکنڈری سکول میں جا رہی ہیں اور 12 صوبوں میں دو لاکھ کے قریب لڑکیاں تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
’اسی طرح سیکنڈری سکولوں کی ٹیچرز بھی طالبان حکام کی جانب سے تنخواہیں بھی وصول کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان حکام نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں اور خواتین سے متعلق اصول وضع ہونے اور حکام کی جانب سے منظوری کے بعد پھر سے لڑکیوں کے سکول کھول دیے جائیں گے۔‘