الیکشن ملتوی ہوئے تو کیا ہو گا؟ ماریہ میمن کا کالم
الیکشن ملتوی ہوئے تو کیا ہو گا؟ ماریہ میمن کا کالم
پیر 13 فروری 2023 5:42
ماریہ میمن
’پی ٹی آئی نے اپنا آخری پتہ کھیلتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا‘ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ سال انتخابات کا سال ہے۔ لائن سے ایک کے بعد ایک انتخابات کا انعقاد متوقع ہے۔ سب سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی انتخابات ہیں جن کے لیے 90 دن کا میٹر ڈاؤن ہو چکا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے واضح فیصلے کے بعد ایک دو دونوں میں ان کے شیڈول کا اعلان ہونا باقی ہے۔ یہ انتخاب اس لیے اہم ترین ہیں کہ چونکہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے اس لیے نئی اسمبلی اپنے معینہ عرصے یعنی پانچ سال کے لیے ہو گی۔ اسی امر کو سامنے رکھتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کا صوبائی انتخابات کو فوری کرانے کو کوئی ارادہ نہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔
دوسری طرف ہیں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات، جو پی ٹی آئی کی جانب سے ابتدائی طور پر دیے گئے استعفوں کو قبول کرنے کے بعد منعقد ہونا ہیں۔ ان ضمنی انتخابات سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا کیونکہ ان حلقوں کی مدت کچھ مہینوں سے زیادہ نہیں ہو گی۔
مگر پی ٹی آئی کو سبق سکھانے اور آئندہ اپوزیشن لیڈر بننے کا موقع نہ دینے کے چکر میں حکومت نے اپنے لیے یہ مشکل بھی کھڑی کر لی۔ اس وقت ایک حکومتی پارٹی ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے حق میں ہے اور دوسری پارٹی ضمنی انتخابات لڑنے کی حمایت کر رہی ہے۔
آخری سنگ میل ہے قومی الیشکن، جو سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے ہمراہ ہوں گے۔ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تو اگست کے بعد 60 دن کے اندر یہ انتخابات اکتوبر میں ہوں گے اور اگر اسمبلی مدت سے کچھ پہلے بھی تحلیل ہو جائے تو 90 دن کے حساب سے کچھ اور آگے بھی جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آگے انتخابات کو لے کر کیا حالات پیدا ہوں گے اور ان حالات سے کیسے نمٹا جائے گا؟ سب سے پہلے تو آج کے حالات ملک کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ کے باوجود غیرمتوقع اور منفرد ہیں۔ پچھلی تینوں اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی اور انتخابات کے انعقاد میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ جو بھی مسائل پیدا ہوئے وہ انتخابات کے دوران یا اس کے بعد منظرعام پر آئے۔
اس سے پیشتر جب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار صدر کے پاس تھا اس وقت اسمبلیوں کی مدت پر سوالیہ نشان رہتا تھا مگر الیکشن تمام اکٹھے منعقد ہوتے تھے۔
موجودہ صورت حال کے پیچھے پی ٹی آئی کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کا زور اور پی ڈی ایم کی طرف سے قبل از وقت انتخابات سے انکار ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنا آخری پتہ کھیلتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا ہے۔ اس لیے گیند موجودہ حکومت کے کورٹ میں چلی گئی ہے۔ اگر وہ باقی تین اسمبلیوں کو تحلیل کر دیتی تو ملک میں باقاعدہ الیکشن کا ماحول بنتا، ایک یقینی صورت حال ہوتی اور تین مہینے میں نئی حکومت نئے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آتی۔ وہ نہ صوبائی انتخابات کروانا چاہتے ہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ وہ آئینی بحران ہے جو اب سب کے سامنے ہے۔
ملک کے تمام معتبر آئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال میں انتخابات کے التوا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سیاسی طور پر یہ ایک ایسا واقعہ ہو گا جو ملک کی بدقسمت سیاسی تاریخ میں بھی سوائے مارشل لا کے ابھی تک رونما نہیں ہوا۔ اس کے باوجود وفاقی اور نگران صوبائی حکومتیں وسائل اور دیگر جواز پیدا کر کے واضح پوزیشن لے چکی ہیں کہ وہ اس وقت انتخابات وقت پر نہیں کروا سکتیں۔
اس سب میں المیہ یہ بھی ہے کہ نگران حکومتیں صرف ایک مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہیں کہ انتخابات کروائیں اور اسی عمل سے وہ پہلو تہی کر رہی ہیں۔ اب آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ اس پر واضح فیصلہ کرے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر الیکشن کمیشن بھی موثر اور یقینی اقدامات نہ کر سکا تو کیا اعلٰی عدالتیں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر آئینی ذمہ داری کو یقینی بنائیں گی جیسا اس سے پہلے عدم اعتماد کی تحریکوں اور وزیراعلٰی کے انتخاب میں نظر آیا۔
سیاسی طور پر بھی انتخابات کا معاملہ ایک بحران سے کم نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں صائب فیصلہ تو تمام انتخابات کے ایک ہی وقت ہونے میں ہے مگر دوسری طرف آئین کی شرط بھی واضح ہے۔ پی ڈی ایم کو قومی اسمبلی کے قبل از وقت انتخابات، جو کہ آئینی طور پر ممکن ہیں، بھی گوارا نہیں اور نہ ہی دونوں طرف کی سیاسی قوتوں میں کوئی ایسی اجتماعی سوچ ہے کہ وہ بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں۔
پی ٹی آئی نے اسمبلی توڑ کر اپنا انتہائی قدم اٹھا لیا اور پی ڈی ایم نے اس کا جواب گرفتاریوں اور چھاپوں کی صورت میں دیا ہے جس کے نتیجے میں اگر مل بیٹھنے کا امکان تھا تو وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔
سیاسی بحران کا شاخسانہ انتظامی بحران کی صورت میں بھی نکل رہا ہے۔ قومی سطح پر آئی ایم ایف کی شرائط میں سختی اور معاہدے میں تاخیر کی ایک وجہ غیریقینی سیاسی صورت حال بھی بتائی جا رہی ہے۔ صوبائی اور نچلی سطح پر انتظامیہ مکمل انتشار میں ہے۔ ملک میں کھانے پینے سے لے کر ادویات تک مختلف بنیادی اشیا بھی دستیاب نہیں۔ پیٹرول کا الگ مسئلہ چل رہا ہے۔ جو اشیا دستیاب ہیں ان کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں۔ جبکہ انتظامیہ کا بنیادی مقصد سیاسی مخالفوں کے خلاف کریک ڈاؤن رہ گیا ہے۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا التوا تو ایک حالیہ بحران ہے مگر زیادہ اندیشہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے التوا کا ہے۔ اس خواہش کے حوالے سے حکومت کے ایوانوں سے دبی دبی آوازیں ابھی سے سنی جا رہی ہیں۔ اگر اس قسم کی کوئی کوشش ہوئی تو وہ ملک کو آئینی، سیاسی اور انتظامی بحران کے ایک نئے سلسلے میں دھکیل دے گی۔ وہ بے چینی، اضطراب اور تشویش جو اس وقت عام ہے وہ ایک ہیجان اور اجتجاج میں بدل جائے گی جس کے نتائج خطرناک ترین ہوں گے۔
امید ہے کہ متعلقہ ادارے اور سیاسی جماعتیں جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں گی اور بروقت انتخابات کروا کر ملک کو آئینی، سیاسی اور انتظامی بحران سے بچائیں گی۔