Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست دانوں کا امتحان: ماریہ میمن کا کالم

اسمبلی کی تحلیل عمران خان کا طبل جنگ جبکہ الیکشن کی تیاری کا اعلان نواز شریف کا جوابی طبل ہے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر)
پنجاب اسمبلی آخر کار تحلیل ہو گئی۔ اب آئینی طور پر کم سے کم صوبائی سطح پر انتخابات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگلی اسمبلی کا انتخاب 90 دن کے اندر اندر ہونا ہے۔ آئینی طور پر کوئی ایسی شرط بھی نہیں کہ اب اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوں۔ 
روایت البتہ مختلف ہے۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ نہ ہوں۔ ماضی قریب میں تمام اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی اور ایک ساتھ انتخابات منعقد ہوئے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں تمام اسمبلیاں بغیر مدت پوری کیے قبل از وقت تحلیل ہوئیں۔ انتخابات اس وقت بھی ایک ساتھ ہوئے حتیٰ کہ 1999 کے بعد بھی جب مارشل لا سے اسمبلی کو گھر بھیجا گیا۔  
یہ نئی صورت حال سیاست دانوں کا امتحان ہے۔ کیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ پنجاب اور پھر اس کے ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی صوبائی انتخابات قومی اور دیگر دو صوبائی انتخابات سے چھے ماہ پہلے منعقد ہو جائیں؟ 
انڈیا جیسے ملک میں جہاں 28 صوبائی ریاستیں ہیں وہاں تو یہ ماڈل کامیابی سے چل رہا ہے مگر ہمارے ہاں جہاں پنجاب 50 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہے اور ساتھ خیبر پختونخوا کو بھی ملا لیا جائے تو عملاً ملک کے دو تہائی حصے میں اپریل میں انتخابات ہوں گے اور باقی ملک اور قومی اسمبلی کے الیکشن اکتوبر تک جائیں گے۔ 
کیا سیاست دان واقعی اس طرح کی غیر یقینی اور غیر معمولی صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟  
یہ بات بھی واضح ہے کہ جس طرح بارہا کوششوں، اشاروں اور مشوروں کے عمران خان کو پنجاب اسمبلی توڑنے سے نہیں روکا جا سکا اسی طرح وفاقی حکومت بھی اپنا فیصلہ کرنے میں کسی کی پابند نہیں۔
پھر وفاق میں تو ایک اتحاد ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے حکومت میں ہے۔ ان کے پاس بھی پانچ سال کا مینڈیٹ ہے، اور ان کو بھی انتخابات میں جانے کا وقت تعین کرنے میں آزادی ہے۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی اور تمام فریق اپنے مفادات کے تحت حتمی فیصلے کرتے رہے تو پھر ایک کی بعد ایک الیکشن آتا چلا جائے گا۔ 

بارہا کوششوں، اشاروں اور مشوروں کے عمران خان کو پنجاب اسمبلی توڑنے سے نہیں روکا جا سکا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

گویا جس طرح 2022 ایک ہیجان اور ہلچل سے بھرپور سال تھا ، 2023 اس سے بڑھ کے ہنگامہ خیز ہو گا۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس سارے ہنگامے میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ جب معیشت کا جہاز اوپر کے بجائے نیچے کی طرف رخ کیے ہوئے ہے۔  
سوال یہ ہے کہ اس ہنگامے اور ہیجان میں سے نکلنے کا راستہ کس کے پاس ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے غیرجانبدار ہونے کا دعویٰ ہے۔ اس دعوے کی صداقت سے قطع نظر اب سامنے آ کر فیصلے کرنا اور ان کو نافذ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 
آخر میں فیصلے کا وزن سیاست دانوں کے ہی سر آنا ہے۔ اگر سیاست دان آپس میں نہ بیٹھے اور اس ہیجان میں سے نکلنے کا راستہ نہ سوچا تو واقعات کا ایک اپنا تسلسل اور اپنا سفر ہوتا ہے۔ 
جس طرح اب تحلیل شدہ اسمبلی واپس نہیں ہو سکے گی اور جس طرح سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہو کر ہی رہے ہیں، اسی طرح صوبائی انتخابات بھی ٹائم لائن پر آرہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی ایک اپنی ٹائم لائن ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ان مختلف ٹائم لائنز کو کیسے اکٹھا کیا جائے؟  

سندھ میں پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے حکومت میں ہے، ان کے پاس بھی پانچ سال کا مینڈیٹ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال کا جواب بھی سیاست دانوں کے پاس ہے۔ جس طرح عمران خان کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل طبل جنگ ہے اسی طرح نواز شریف کی طرف سے الیکشن کی تیاری کا اعلان جوابی طبل ہے۔ 
اگر اسی طرح طبل کے جواب میں طبل بجتے رہے تو کوئی بھی مشترکہ میدان ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔ اور پھر بات صرف انتخابات کی تاریخ کی نہیں، بات انتخابات میں انتظامات کی بھی ہے اور پھر ان کے نتائج کو تسلیم کرنے کی بھی ہے۔ اگر انتخابات کے بعد کوئی ایک فریق اسمبلی میں بیٹھنے سے ہی انکار کر دے تو بات پھر وہیں پر آجائے گی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔  
اور بات ہے سیاست دانوں کے امتحان کی اور بات اگر سیاست دانوں کی ہو تو سب سے نمایاں  شخصیت عمران خان کی ہے۔ ان کی پارٹی میں سے فواد چوہدری اور دیگر کی طرف سے کبھی کبھی درمیانی راستے کی آوازیں آجاتی ہیں۔ عمران خان کی طرف ایسا اشارہ نظر نہیں آیا۔

ملک میں انتخابات اس وقت بھی ایک ساتھ ہوئے جب مارشل لا سے اسمبلی کو گھر بھیجا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے حالیہ بیان سے اداروں کے لیے گنجائش تو نظر آئی ہے مگر دیگر سیاست دان ابھی اس میں شامل نہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا ایک بیانیہ اور ایک سیاسی پوزیشن ہے۔ وہ اس بیانیے کو نرم یا کمزور نہیں کرنا چاہیں گے۔ مگر اس وقت مسئلہ الیکشن کی ٹائمنگ اور انعقاد کا ہے۔ ان کا دعویٰ  دو ٹوک سہی مگر اس کو عملی جامہ پہنانے میں بھی دیگر سیاست دانوں کا رول ہے۔ 
اسی لیے امید اور توقع ہے کہ وہ اس صورت حال سے نکلنے میں لیڈ لیں گے۔ اس کے ساتھ پی ڈی ایم کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اتنی پرانی پارٹیاں ہوتے ہوئے ان کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کیا ہے۔ کیا وہ قلیل عرصے کے بھنور میں پھنس کے اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پہ ہی لگائے رکھیں گے یا پھر سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل سے بچنے کے بجائے یہ میچ کھیلیں گے۔ اس امید کے ساتھ یہ آخری میچ نہیں ہے۔ 

شیئر: