پاکستان میں جیل بھرو تحریک کب کب چلائی گئی اور نتائج کیا نکلے؟
پاکستان میں جیل بھرو تحریک کب کب چلائی گئی اور نتائج کیا نکلے؟
منگل 21 فروری 2023 5:24
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے رجسٹریشن شروع کر دی ہے۔
اتوار کو پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ایک روزہ رجسٹریشن مہم میں پی ٹی آئی نے 10 ہزار سے زائد کی افراد کی رجسٹریشن کا دعوٰی کیا ہے۔
سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا اعلان تو کیا جا رہا ہے لیکن اس پر عملدرآمد ذرا مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کئی بار اپنے اعلانات سے دستبرار ہو چکے ہیں اور جیل بھرو تحریک بھی ایک مشکل تحریک ہے۔
کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فلک الماس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران خان کی جانب سے اعلان کے بعد صوبہ سندھ بالخصوص کراچی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں ایک روزہ کیمپ میں 10 ہزار سے زائد افراد نے رجسٹریشن کروائی ہے۔ رجسٹریشن کروانے والوں میں سابق اراکین قومی اسمبلی، موجودہ ارکان سندھ اسمبلی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں سمیت بڑی تعداد میں عمران خان کے چاہنے والے شامل ہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چار فروری کو کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کے لیے تیار رہنے کا پیغام دیا تھا اور 17 فروری کو اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے 22 فروری سے جیل بھرو تحریک لاہور سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے گرفتاری دینے کے لیے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار وسعت اللہ خان نے کہا کہ ’تحریک انصاف اب تک کئی تجربات کر چکی ہے پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کیا۔ اسمبلیوں سے استعفے دیے، صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا۔ اسی طرح ایک اور احتجاج کی کال دی گئی ہے۔‘
تجزیہ کار رفعت سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان سمجھتے ہیں کہ جیل بھرو تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت پر دباؤ بڑھائیں گے اور انتخابات کا مطالبہ تسلیم کروا لیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسلمبلیاں تحلیل کرنے کے نتائج بھی عمران خان کے حق میں نہیں رہے ہیں اور فواد چوہدری اور شیخ رشید کی گرفتاریوں نے بھی عمران خان کو مجبور کیا ہے کہ جلد ہی کوئی فیصلہ کر لیا جائے تاکہ مزید افرادی کی گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔‘
رفعت سعید کے مطابق ’عمران خان عالمی لیڈروں کی اکثرمثالیں دیا کیا کرتے ہیں شاید ان کے ذہن میں پڑوسی ملک انڈیا کے مزاحمتی رہنما انا ہزارے کی جیل بھرو تحریک کا خیال بھی موجود ہے۔
’2011 میں انا ہزارے نے انڈیا کی حکومت کو جیل بھرو تحریک کے ذریعے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا لیکن اس تحریک اور عمران خان کی موجودہ صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو حالات اور مطالبات بالکل ہی مختلف ہیں۔ جیل بھرو ایک مشکل تحریک ہے اور عمران خان اپنے کئی اعلانات سے دستبردار بھی ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ کام اور بھی مشکل نظر آتا ہے۔‘
جیل بھرو تحریک کیا ہے؟
وسعت اللہ خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیل بھرو تحریک کی 100 سالہ تاریخ ہے۔ ’تقسیم ہند سے قبل برصغیر ہند کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا اور گرفتاریاں پیش کیں۔ اس کے بعد مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی یہ تحریک چلائی۔ یہ سیاست دانوں کے احتجاج کی ایک صورت ہے۔ جس کا مقصد اقتدار میں موجود افراد کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں جیل بھرو تحریک کب کب چلائی گئیں؟
رفعت سعید پاکستان میں چلنے والی تحریکوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ 1983 میں ایم آر ڈی تحریک نے سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں یہ تحریک چلائی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ گرفتار ہوئے۔ اس کے علاوہ نومبر 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے خلاف احتجاج کرنے والے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا جس پر احتجاج کرنے والی جماعتوں نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا اور عوامی نیشنل پارٹی کے پانچ کارکنوں نے عدالت کے ذریعے اپنی گرفتاری دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جیل بھرو تحریک کی کئی مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں اس تحریک کو ایک دھمکی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ 2004 میں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور اسے روکے جانے پر قاضی حسین احمد نے اعلان کیا اگر ریلی کو روکا گیا تو وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کریں گے۔
اسی طرح 2007 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خیبر پختونخوا کے وکلا نے ایمرجنسی کے خلاف بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ جیل بھرو تحریک کی بھی دھمکی دی لیکن یہ بھی صرف دھمکی ہی ثابت ہوئی، جنوری 2018 میں تحریک لبیک پاکستان کے رہنما کی جانب سے رانا ثنا اللہ کے استعفے سمیت دیگر مطالبات پورے نہ کرنے پر جیل بھرو تحریک کی دھمکی دی گئی اور یہ معاملہ بھی دھمکی کی حد تک ہی رہا۔
کیا کوئی بھی شہری کسی بھی وقت گرفتاری دے سکتا ہے؟
معروف قانون دان حسان صابر کے مطابق کوئی بھی شہری بنا کسی جرم کے گرفتاری نہیں دے سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی شہری جیل کے دروازے پر جائے اور کہے کہ مجھے قید کیا جائے اور اسے گرفتار کر لیا جائے۔
’پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ پولیس یا جیل عملہ کسی کو بنا کسی جرم کے گرفتار یا قید کر سکے۔ کورٹ کے احکامات کے بغیر کسی کو جیل بھیجا یا چھوڑا نہیں جا سکتا۔‘
اس بارے میں وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے لیے کسی جرم کا ارتکاب کرنا ضروری ہے۔ بنا کسی جرم کے کیسے گرفتاری دی جا سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے جس کے تحت چار سے زائد افراد کے ایک مقام پر جمع ہونے پر پابندی ہوتی ہے۔ اگر حکومت اس دفعہ کا نفاذ کرے اور پی ٹی آئی کے رہنما جمع ہوں تو ان کی گرفتاری ممکن ہے۔‘
وسعت اللہ خان نے مزید کہا کہ ’عام طور پر حکومتیں ایسے موقع پر بھی لاٹھی چارج اور شیلنگ کی حد تک ہی محدود نظر آتی ہیں وقتی طور پر گرفتار کیے جانے والے سیاسی کارکنوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی کال پر یہ تحریک دھمکی تک محدود رہتی ہے یا پھر اس کے تحت گرفتاریاں دی جاتی ہے۔‘
عمران خان کے اعلان کے بعد ملک کے بیشتر علاقوں میں گرفتاری کے لیے رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔
پشاور سے اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض خان کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کال پر پی ٹی آئی پشاور ریجن کی جانب سے جمعرات کے دن جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جیل بھرو تحریک میں 18 ہزار افراد نے رجسٹریشن کی ہے جبکہ مزید رجسٹریشن بھی ہو رہی ہے۔
’جیل بھرو تحریک کا باقاعدہ آغاز جمعرات کو ہوگا جس کے پہلے مرحلے میں ہر یونین کونسل سے دس کارکن گرفتاری دیں گے۔‘