بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے ماں اور دو بیٹوں کی لاشیں ملی ہیں جن کے بارے میں لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ وہ کئی برسوں سے بلوچستان کے صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔
دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کوہلو سے لاشیں لے کر کوئٹہ پہنچے اور وزیراعلٰی ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں افراد کو سروں میں گولیوں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
عبدالرحمان کھیتران نے الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں بدنام اور سرداری سے ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے اور جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں ان کے خلاف ایسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
پولیس کے مطابق تینوں لاشوں کو بارکھان سے قریبی ضلع کوہلو منتقل کردیا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ عیدگاہ میں ادا کی گئی-
کوہلو کے صحافی یوسف مری کے مطابق جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے جس کے بعد مری قبائل کے افراد میتیں لے کر کوئٹہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مری قبائل کے افراد نے قاتلوں کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں وزیراعلٰی ہاؤس کے سامنے میتوں کے ہمراہ دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے-
بارکھان کی ضلعی پولیس کے سربراہ ایس پی نور محمد بڑیچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ تین افراد کی لاشیں بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور ایک کنویں سے ملیں جنہیں پولیس نے ریسکیو ٹیموں کی مدد سے نکال لیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان کے وزیر پر قتل کا الزامNode ID: 494626
-
کوئٹہ سے مشتبہ خاتون خودکش حملہ آور گرفتار، بارودی مواد برآمدNode ID: 744111
بارکھان کوئٹہ سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ملحقہ بلوچستان کا آخری ضلع ہے۔
ایک اور پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ تینوں افراد کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ آنکھوں پر بھی پٹی باندھی گئی تھی جبکہ خاتون کا چہرہ کچلا ہوا ہے اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خاتون کو کوئی پتھر یا بھاری چیز چہرے پر ماری گئی ہے یا پھر تیزاب پھینکا گیا ہے۔
ایس پی نور محمد بڑیچ کے مطابق ’لاشوں کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ ضروری کی کارروائی اور شناخت کے لیے لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بارکھان منتقل کر دیا گیا ہے۔ تاہم ضلع دکی کے رہائشی خان محمد مری نامی شخص کا دعویٰ ہے کہ یہ لاشیں ان کے پیاروں کی ہیں جن میں ان کی 40 برس کی اہلیہ گرناز، 22 برس کا بیٹا محمد نواز اور 15 برس کا بیٹا عبدالقادر شامل ہیں۔
خان محمد مری کا الزام ہے کہ قتل ہونے والی اہلیہ اور دونوں بیٹے گزشتہ تقریباً چار سال سے صوبائی وزیر اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔
بارکھان پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عبدالرحمان کھیران کے گھر گزشہ ماہ کی 18 تاریخ کو چھاپہ مارا گیا تھا لیکن کسی قسم کے شواہد نہیں ملے۔
بیان کے مطابق اس سے قبل گزشتہ برس نومبر میں بھی پولیس ٹیم نے مغویوں کی رہائی کے لیے چھاپہ مارا تھا لیکن الزامات کا ثبوت نہیں ملا۔
خان محمد مری نے ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ دوران قید ان کی اہلیہ اور بچوں پر بد ترین ظلم کیا جاتا رہا اور انہیں بھوکا جاتا تھا۔
خان محمد مری نے الزام لگایا کہ ’ان کی چودہ سالہ بیٹی اور پانچ سے تیرہ سال کے چار بیٹے اب بھی صوبائی وزیر کی نجی جیل میں بند ہیں جن کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس دوران اہلیہ نے عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے سے بھی درخواست کی جنہوں نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی۔
یہ ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کئی دنوں سے گردش کر رہی تھی جس میں خاتون بلوچی زبان میں کہتی ہے کہ ’سردار عبدالرحمان کھیتران نے ہمیں قید کیا ہوا ہے۔ میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے، ہمیں آزاد کرایا جائے۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی 26 جنوری کو سینیٹ آف پاکستان کے اجلاس میں اس معاملے اٹھایا تھا اور حکام سے صوبائی وزیر کی قید سے خان محمد مری کی اہلیہ اور بچوں کو بازیاب کرانے کا مطالبہ کیا تھا-
سینیٹر مشتاق احمد نے ٹویٹر پر اپنے تازہ بیان میں تہرے قتل کے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ خون پوری ریاست کے ذمے ہے۔ میں نے سوشل میڈیا اور سینیٹ کے فلور پر سب کی منت سماجت کی لیکن عبدالرحمان کھیتراں کے جیل سے کوئی ان کو رہائی نہیں دلاسکا۔‘
خان محمد مری نے بتایا کہ وہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے سابق ملازم ہیں وہ ان کے نوکر اور محافظ کے طور پر کئی سالوں سے کام کرتے رہے ہیں۔
خان محمد مری کے بقول ’2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے بیٹے انعام شاہ کے خلاف عدالت میں گواہی دینے اور قتل کرنے کاحکم دیا لیکن میں نے انکار کردیا اور وہاں سے بھاگ نکلا‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد سے صوبائی وزیر نے ان کی اہلیہ اور بچوں کو مکمل قیدی بنا لیا ہے۔‘