بلوچستان کے ضلع بارکھان میں دو روز قبل قتل ہونے والے سماجی کارکن انور جان کھیتران کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر خوراک و بہبود آبادی عبدالرحمان کھیتران کے محافظوں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔
مقتول کے بھائی کا الزام ہے کہ صوبائی وزیر بھی قتل میں ملوث ہیں جنہوں نے مظالم اور کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنے پر انور کو قتل کرایا، تاہم عبدالرحمان کھیتران نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
وزیر خوراک و بہبود آبادی بلوچستان عبدالرحمان کھیتران نے کراچی سے ٹیلی فون پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے الزامات کی تردید کی ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ ان کی انور جان یا ان کے خاندان سے کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی قتل کے اس واقعے سے ان کا یا ان کے کسی محافظ کا کوئی تعلق ہے۔ 'جنہیں نامزد کیا گیا ہے وہ میرے محافظ نہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'انور جان صحافی نہیں بلکہ ایک قوم پرست پارٹی کے کارکن تھے اور وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بلیک میلنگ کرتے تھے۔'
مزید پڑھیں
-
’ کورونا واقعی خوفناک ہے‘ سعودی صحافی کی آپ بیتیNode ID: 492091
-
صحافی مطیع اللہ جان بازیاب ہو گئےNode ID: 493736
-
انڈین صحافی بیٹیوں کے سامنے قتل، ’کرائم کا وائرس سرگرم‘Node ID: 493961
لیویز کے مطابق کوئٹہ سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ملحقہ بارکھان میں صحافی انور جان کے قتل کا واقعہ 23 جولائی کی شام کو پیش آیا تھا۔ انہیں موٹرسائیکل پر گھر جاتے ہوئے ناہڑ کوٹ کے مقام پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا اور فرار ہوگئے۔
لیویز کا کہنا ہے کہ واقعے کا مقدمہ لیویز تھانہ ناہڑ کوٹ میں مقتول کے بھائی اکبرخان کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے جس میں نادر خان اور آدم خان نامی افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
مدعی کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں ملوث دونوں افراد صوبائی وزیر عبدالرحمان کے محافظ ہیں جس کی بنیاد پر مدعی نے مقدمے میں صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران کو بھی نامزد کرتے ہوئے لیویز کو بیان دیا ہے کہ ان کے بھائی کے قتل کی وجہ صحافت بنی ہے۔ صوبائی وزیر انور کھیتران نے انہیں صحافت سے باز آنے کا کہا تھا۔
بارکھان کے مقامی صحافی رزاق کھیتران کے مطابق انور کھیتران پریس کلب کے رکن نہیں تھے اور باقاعدہ صحافت کے بجائے سوشل میڈیا پر سرگرم تھے۔
مقتول کے چھوٹے بھائی غلام سرور نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انور جان کھیتران سماجی کارکن تھے اور صحافت سے بھی وابستہ تھے۔ وہ پنجاب کے ایک اخبار روزنامہ 'نوید پاکستان' کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ْفیس بک ٗپر کافی متحرک تھے اور عوامی مسائل اور علاقے میں طاقتور قبائلی سرداروں کے مظالم کے خلاف کھل کر لکھتے تھے۔
غلام سرور نے الزام لگایا کہ انہیں شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ انور جان کھیتران کا قتل صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے کہنے پر ان کے کارندوں نے کیا ہے۔ 'دو تین ماہ قبل سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے کارندوں نے ٹیلی فون کر کے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف لکھنے پر بھائی کو دھمکیاں دی تھیں۔'
انہوں نے لیویز پر بھی جانب داری کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ لیویز افسران نے صوبائی وزیر کا نام مقدمے میں شامل نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور تاخیر سے مقدمے کا اندراج کیا۔ غلام سرور نے بتایا کہ بھائی کے قتل کے بعد ہمیں بھی خاموش نہ ہونے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی وزیر کو گرفتار کرکے مقدمے میں شامل تفتیش کیا جائے۔
صوبائی وزیر اطلاعات و خزانہ ظہور بلیدی نے انور کھیتران کے قتل پر مقتول کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ سینیئر صحافی حامد میر، سلیم صافی اور بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن رکن ثنا بلوچ نے بھی سوشل میڈیا پر رد عمل دیا ہے۔ حامد میر نے لکھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بتائیں کہ انور کھیتران کے قاتل ابھی تک گرفتارکیوں نہیں ہوئے؟
گولی اور گالی سے صحافیوں کو سبق سکھانے والے یاد رکھیں کہ وہ تو ختم ہو جائیں گی لیکن صحافیوں کی آوازیں کبھی ختم نہیں ہونگی ، بلوچستان کے وزیراعلیٰ بتائیں کہ صحافی انور کھیتران کے قاتل ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے ؟@jam_kamal https://t.co/qH1qnCaDpD
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) July 24, 2020