Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپین سے آئی دو بہنوں کا قتل، والد سازش میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار

گزشتہ برس بھی عروج عباس اور انیسہ عباس کے قتل کے بعد ان کے والد سے سپین کی پولیس نے تفتیش کی تھی۔ (فائل فوٹو: گجرات پولیس)
صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں سپین سے آئی دو بہنوں عروج عباس اور انیسہ عباس کے قتل کے معاملے میں سپین میں مقیم ان کے والد کو اپنی بیٹیوں کے قتل کی سازش کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سپین کی مقامی عدالت نے خاندانی سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں والد کی گرفتاری کا حکم دیا۔
پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ’لڑکیوں کے والد غلام عباس اپنی بیٹیوں عروج اور انیسہ کو دھوکہ دینے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔‘
’اس سازش کا مقصد لڑکیوں کو گجرات کے ایک گاؤں بھیجنا تھا۔ اس کے لیے لڑکیوں کے سامنے یہ بہانہ بنایا گیا کہ کچھ ہی روز قبل سپین سے پاکستان پہنچنے والی ان کی والدہ بیمار ہو گئی ہیں۔‘
عدالت کو بتایا گیا کہ ’اس کا مقصد یہ تھا لڑکیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد اپنے شوہروں کو یورپ لائیں جن کا ان سے چار سال قبل نکاح ہوا تھا، لیکن لڑکیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس نکاح سے نکلنا چاہتی تھیں۔ جس سے انکار کے بعد ان کے چچا، بھائی اور کزنز نے مل کر انہیں قتل کر دیا تھا۔‘

پاکستان میں بھی اس واقعے کے بعد لڑکیوں کے چچا، بھائی اور کزنز سمیت سات افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ (فوٹو: گجرات پولیس)

لڑکیوں کے والد کی گرفتاری کا مقصد بیان کرتے ہوئے عدالت نے واضح کیا ہے کہ عدالت اب یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا باپ نے اس مکروہ منصوبے کو ڈیزائن کرنے میں مدد کی اور کیا وہ اپنی بیٹیوں کے قتل کے منصوبے سے آگاہ تھے؟
گزشتہ برس بھی عروج عباس اور انیسہ عباس کے قتل کے بعد ان کے والد غلام عباس سے سپین کی پولیس نے تفتیش کی تھی۔
دوران تفتیش انہوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ ’جس دن میری بیٹیاں پاکستان پہنچیں اسی دن ان کو قتل کر دیا گیا۔‘
52 سالہ غلام عباس پولیس کو اپنے سپین آنے کی درست تاریخ اور برس نہ بتا سکے اور انہوں نے کہا کہ وہ سپین آ کر کیٹالونیا ضلع میں مقیم ہوئے اور کام شروع کیا۔
بعد ازاں انہوں نے اپنی بیوی اور چھ بچوں کو بھی سپین بلا لیا جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل تھیں۔ ایک بیٹے کا کچھ عرصہ قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ان سب کے پاس سپین کا پاسپورٹ اور شہریت ہے۔ 
مقتولہ لڑکیوں کے والد نے سپین کی پولیس کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل بیٹیوں کا نکاح خاندان کی رضامندی سے ہوا، اس وقت انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
’بعد ازاں ان کے شوہروں کو سپین بلانے کے لیے ضروری کاغذی کارروائی شروع کی اور اس سلسلے میں اپنی دونوں بیٹیوں، والدہ اور تین بیٹوں کو پاکستان بھیجا۔‘
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل بیٹیوں نے اپنے شوہروں کو سپین بلانے کے لیے پروسیس شروع کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ نکاح کے وقت وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہیں کہ ان کے لیے یہ رشتے مناسب بھی ہوں گے یا نہیں۔

سپین کی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ’لڑکیوں کے والد غلام عباس اپنی بیٹیوں کو دھوکہ دینے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

غلام عباس کے مطابق ’اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کِیا ہے۔ انہیں پاکستان اس لیے بھیجا کہ ہو سکتا ہے کہ صورت حال تبدیل ہو جائے لیکن ان سے کوئی بات چیت نہ ہوئی۔‘
اس کے بعد بیٹوں کی گرفتاری کی اطلاع ملی اور رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ میری بیٹیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں بھی اس واقعے کے 48 گھنٹے کے اندر اندر لڑکیوں کے چچا، بھائی اور کزنز سمیت سات افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق یہ مقدمہ عدالت میں زِیرسماعت ہے اور ملزمان جیل میں ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان میں مرکزی ملزم شہریار، لڑکیوں کا چچا حنیف بھی شامل ہے، دیگر ملزمان قاصد، عتیق، حسن اور اسفندیار قتل میں ملوث تھے۔ جنہوں نے دوران تفتیش اقرار جرم بھی کر لیا تھا۔

شیئر: