Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملکی سیاسی مسائل کا حل پارلیمان کے بجائے عدالتوں میں کیوں؟

معیز جعفری کے مطابق ’سیاسی معاملات میں مداخلت سے عدلیہ کا نقصان ہوتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اس وقت بظاہر پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔ پارلیمنٹ کا وجود بھی برقرار ہے، وزیراعظم اور ان کی کابینہ بھی موجود ہے اور ملکی معاملات چلانے کے لیے ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس بھی ہوتا ہے۔ 
اسی طرح تواتر کے ساتھ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے الگ الگ اور مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہو رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس وقت ملک کو درپیش تمام مسائل اور بحرانوں پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوتی اور معاملات عدالتوں میں ہی لائے جا رہے ہیں۔ 
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری ملکی سیاست ایوانوں کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ سیاسی معاملات سیاسی سطح پر حل ہونے کے بجائے عدالتوں میں زیر بحث ہیں جس سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو بحث پارلیمان کے ذریعے آنی چاہیے تھی وہ عدالتوں کے ذریعے آ رہی ہے۔
اس سے نہ صرف عدالتوں کا تشخص اور کارکردگی متاثر اور مجروح ہو رہی ہے، بلکہ سیاسی قیادت بھی عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہے کہ یہ لوگ مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔  
اس معاملے پر اُردو نیوز سے گفتگو میں سینیئر قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’جب کبھی بھی سیاسی معاملات عدالتوں میں لے گئے ہیں اس سے ملک کی سیاست اور جمہوریت کو نقصان ہوا ہے۔ اس سے عدلیہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ عدلیہ اندر سے تقسیم ہو جاتی ہے۔ عدالتی فیصلوں سے سیاسی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔‘
پارلیمانی جمہوریت پر کام کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’جب سیاست اور سیاسی مسائل ایوانوں سے نکل کر عدالتوں کی زینت بنتے ہیں تو اس سے دو بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ جاتا ہے اور وہ عوامی مقدمات چھوڑ کر سیاسی مقدمات میں اُلجھ جاتی ہیں اور عدالتوں میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھتی جاتی ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں نہ صرف تاخیر ہوتی ہے بلکہ انصاف کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔‘  
قانونی ماہر معیز جعفری سمجھتے ہیں کہ اس وقت عدالتوں میں جو بھی معاملات ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ’پارلیمان اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ’وہ لوگ جو حکومتی بینچوں پر ہیں وہ تو پارلیمنٹ میں جاتے ہیں، لیکن اپوزیشن نے اپنا پارلیمانی کردار ادا نہیں کیا۔ سیاسی اور پارلیمانی سطح پر اتفاق رائے نہیں ہوتا اور تمام لوگوں کی رائے شامل نہیں ہوتی تو جو فریق سمجھتا ہے کہ اس کی بات نہیں مانی گئی تو وہ عدالت کا رخ کرتا ہے، حالانکہ قانونی طور پر اس فریق کو پارلیمان میں ہی اپنی رائے دینی چاہیے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ایک مہذب معاشرے میں اگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی زیادتی ہوتی ہے اور من مانی کی جاتی ہے تو اس کی شکایت کی پہلی جگہ پارلیمان ہوتی ہے۔‘  
پاکستان میں سیاسی معاملات عدالتوں میں پہنچنے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی جتنا پرانا پاکستان ہے، لیکن گزشتہ ایک سال میں عدالتوں میں سیاسی مقدمات اس تواتر کے ساتھ آئے ہیں کہ سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہمہ وقت انھیں مقدمات میں مصروف رہتی ہیں۔  

احمد بلال نے کہا کہ ’سیاست دان یا سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے عدالتوں کا رخ کرتی ہیں۔‘ (فوٹو: قومی اسمبلی)

یہ سلسلہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے بجائے اسے غیرآئینی طریقے سے مسترد کر کے اسمبلی تحلیل کرنے سے شروع ہوا جس کے بعد منحرف ارکان سے متعلق صدارتی تشریح، پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا انتخاب، نیب قوانین میں ترامیم، الیکشن ایکٹ میں ترامیم، گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ سے حلف لینے سمیت متعدد ایسے معاملات ہیں جو مسلسل سپریم کورٹ میں زیربحث رہے۔  
عمران خان کی جانب سے احتجاج کی کال اور اسے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر بھی سپریم کورٹ حرکت میں رہی تو جہاں ایک طرف سڑکوں پر سیاسی پاور شو جاری تھا تو دوسری طرف عدالتی محاذ پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آئے۔  
یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاخیر پر از خود نوٹس لیا تو یہ ایک ایسا سیاسی معاملہ تھا جو پہلے کبھی عدالتوں میں نہیں آیا تھا۔ 
اسی طرح لاہور ہائی کورٹ میں گورنر کی عہدے سے برطرفی، پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ، وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف نہ لینے کا معاملہ، الیکشن کی تاریخ اور عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی ضمانتوں اور دیگر معاملات پر مسلسل سماعتیں ہو رہی ہیں۔  
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات، قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملات، توہین عدالت، توشہ خانہ اور پھر مقدمات میں ضمانتوں کے مقدمات آئے روز خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔  
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’جب عدالتیں بہت زیادہ سیاسی مقدمات میں الجھ جاتی ہیں تو انہیں سیاسی نوعیت کے سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے تو ایسے میں جس بھی فریق کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ اس کی تشریح اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اس وجہ سے عدالتیں متنازع ہو جاتی ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سیاست دان یا سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہونے، قانون ہاتھ میں لینے اور شدت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے عدالتوں کا رخ کرتی ہیں۔‘  

معیز جعفری نے کہا کہ ’عدالتوں کو استعمال کر کے ہائبرڈ رجیم تشکیل دی جاتی رہی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ پارلیمنٹ اپنی وقعت کھو چکی ہے درست نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ موجود ہے البتہ ارکان پارلیمان کو جس انداز سے اس میں معاملات کو لانا چاہیے تھا، جس طرح قانون سازی کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کر رہے۔ ارکان قانونی بحث کے بجائے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس سے پارلیمانی کارروائی کمپرومائز ہوتی ہے۔ پھر بھی پارلیمنٹ موجود ہے اور نہ ہونے سے بہت بہتر ہے۔‘
معیز جعفری نے کہا کہ ’پاکستان میں عدالتوں نے سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کی ہے اور عدالتوں کو استعمال کر کے ہائبرڈ رجیم تشکیل دی جاتی رہی ہیں۔ اس لیے ہر ایک کو یہ شارٹ کٹ نظر آتا ہے کہ وہ عدالت جائیں گے تو کم از کم آئینی سمت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وقتی طور پر تو فیصلہ ہوجاتا ہے، لیکن سیاسی معاملات میں مداخلت سے عدلیہ کا نقصان ہوتا ہے۔ جب بھی ادارے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کرتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘
حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’سیاسی معاملات کا سیاسی حل ہی پائیدار ہوتا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل حل کر لیں ورنہ جمہوریت، عدلیہ اور اداروں کا نقصان ہونے جا رہا ہے۔‘ 

شیئر: