Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: شوہر کے ساتھ باری باری ہفتے کے تین دن گزارنے کے لیے دو بیویوں کا معاہدہ

وکیل نے کہا کہ ’ہندو مذہب کے تحت یہ معاہدہ غیر قانونی ہے۔‘ (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
انڈٰیا کی ریاست مدھیا پردیش کے شہر گوالیار میں رہنے والے ایک شخص کی دو بیویوں نے اس کے ساتھ الگ الگ دن گزارنے کے لیے معاہدہ کر لیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق گوالیار شہر کی فیملی کورٹ کے وکیل نے بتایا ہے کہ ’ایک شخص اور اس کی دو بیویوں نے الگ الگ مکان میں خوشی سے رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی طے کیا کہ شوہر اپنی ایک بیوی کے ساتھ ہفتے کے تین دن گزارے گا، جبکہ اسے ساتواں دن اپنی مرضی سے کسی ایک بیوی کے ساتھ گزارنے کی اجازت ہوگی۔‘
تاہم ہریش دیوان نامی وکیل نے اس ’معاہدے‘ کو ہندو مذہب کے تناظر میں غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
وکیل ہریش دیوان کہتے ہیں کہ ’اس شخص اور اس کی دو بیویوں کی کہانی تب سامنے آئی جب اس نے اپنی سابقہ خاتون کولیگ کے ساتھ گروگرام میں دوسری شادی کر لی۔ اس سے قبل وہ اپنے پہلی اہلیہ کو کورونا وائرس کی وبا کے دوران گوالیار چھوڑ آیا تھا۔‘
’اس کی پہلی شادی گوالیار میں رہنے والی خاتون سے 2018 میں ہوئی، وہ دونوں دو برس تک ایک ساتھ رہے، تاہم کورونا وائرس کی وبا کے دوران اس نے اپنی اہلیہ کو میکے بھیج دیا اور خود وہ گروگرام چلا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ 2020 تک اپنی پہلی بیوی کو واپس لانے کے لیے گوالیار نہ گیا جس کے بعد اس کی اہلیہ کو شک پڑا اور وہ گروگرام میں اس کے دفتر آ گئی جہاں آ کر اسے یہ پتا چلا اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور اس دوران اس کی بیٹی بھی پیدا ہو چکی ہے۔‘
’دوسری شادی کا علم ہونے کے بعد پہلی اہلیہ نے دفتر میں سب کے سامنے اپنے شوہر سے لڑائی کی اور احتجاج کیا پھر اس نے انصاف کے لیے گوالیار کی فیملی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’بعد میں اس کے شوہر کو گوالیار طلب کیا گیا، راضی نامہ کرنے کی کئی کوششوں کے باوجود اس نے اپنی دوسری اہلیہ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ دونوں بیویوں کو بھی راضی کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھی۔‘
ہریش دیوان کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد تینوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شوہر ہفتے کے تین تین دن باری باری دونوں بیویوں کے ساتھ گزارے گا، جبکہ اتوار کے دن اسے آزادی ہوگی کہ وہ دونوں بیویوں میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔‘
’معاہدے کے تحت وہ دونوں بیویوں کو اپنی تنخواہ میں سے برابر کا حصہ دے گا اور گروگرام میں دونوں کو الگ فلیٹ بھی لے کر دے گا۔‘
اس معاہدے کی قانونی اور مذہبی حیثیت پر وکیل ہریش دیوان کہتے ہیں کہ ’تینوں نے اپنی مرضی سے یہ معاہدہ کیا ہے۔ اس میں وکیل یا فیملی کورٹ کو کوئی کردار نہیں ہے۔ تینوں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ ہندو ہیں اور ہندو مذہب کے تحت یہ معاہدہ غیر قانونی ہے۔‘

شیئر: