Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آج کے بال پِکر کل کے کپتان‘ شاندار کیچ پر بابراعظم کی داد

بابر اعظم کا کرکٹ کا سفر بھی ایک بال پِکر کے طور پر 2007 میں شروع ہوا تھا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے الیمینیٹر میچ میں پشاور زلمی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 12 رنز سے شکست دے دوسرے الیمینیٹر میچ کے لیے جگہ بنا لی ہے لیکن کرکٹ شائقین کے لیے میچ میں ہار اور جیت سے زیادہ دلچسپ اور یادگار کچھ اور ہے۔
جمعرات کو لاہور میں کھیلے گئے پی ایس ایل کے پہلے الیمینیٹر میچ کی دوسری اننگز میں وہاب ریاض کی گیند پر شان مسعود نے چھکا لگایا جس کو باؤنڈری کے دوسری جانب کھڑے ’بال پِکر‘ کیچ کرتے ہیں۔
بال پِکر کے کیچ کرنے پر پشاور زلمی کے کپتان بابر اعظم نے انہیں داد دی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کرکٹ فینز بابر اعظم کے ’بال پِکر سے دنیا کے نمبر ون‘ بیٹسمین بننے کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کے کسی بال پِکر کے لیے یہ لمحہ کتنا اہم ہوتا ہے۔
ٹوئٹر ہینڈل کنگ بابر اعظم آرمی پر ان لمحات کو شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’بابر اعظم بال پِکر کو داد دے رہے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ بال پکر کے لیے کسی بڑے کھلاڑی کی جانب سے داد ملنا کیسا ہوتا ہے۔‘

پاکستان سُپر لیگ کے لیے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا گیا کہ ’آج کے بال پِکر مستقبل کے کپتان، یہاں خواب بنتے ہیں۔‘
سپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار لکھتے ہیں کہ ’پی ایس ایل 8 کے بہترین لمحات، بابر اعظم نے باؤنڈری کی دوسری جانب کھڑے بال پِکر کے شاندار کیچ کی ویڈیو کو سراہا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’16 برس قبل جب ساؤتھ افریقہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو بابر اعظم بھی ایک بال پِکر تھے۔‘
ٹوئٹر ہینڈل بابر ہیپی فار بابر پر لکھا گیا کہ ’انہوں نے بال پِکر کو داد دی کیوں کہ وہ جانتے ہیں یہاں آنے تک کتنی محنت ہوتی ہے۔‘
نازیہ شیخ لکھتی ہیں کہ ’یہ مستقبل کے بابر ہو سکتے ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے بابر جونیئر۔‘
کرکٹ اعداد وشمار کی ویب سائٹ پاکستان کرکٹ کے مطابق بابر اعظم کا کرکٹ کا سفر بھی ایک بال پِکر کے طور پر 2007 میں شروع ہوا تھا جب ساؤتھ افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔
پاکستان کرکٹ کے مطابق بابر اعظم نے کہا ’میرا کرکٹ کا سفر 2007 میں شروع ہوا تھا۔ مجھے کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا لیکن میں انٹرنیشنل کرکٹ سٹار کو سامنے کھیلتا دیکھنا چاہتا تھا۔‘
’ اس وقت میں نے کسی سے کہا تھا کہ میری بال پِکر بننے میں مدد کریں، اور میں روز گلبرگ سے قذافی سٹیڈیم جاتا تھا۔‘

شیئر: