اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے پولیس کو انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ عمران خان کی تحریری یقین دہانی عدالت کے سامنے دیے گئے بیان کے مترادف ہے۔ اگر کل بھی عمران خان پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں وارنٹ منسوخی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’کل اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں خود پیش ہو جاؤں گا۔ انڈر ٹیکنگ تسلیم کرکے پولیس کو گرفتاری سے روکا جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
وارنٹ برقرار، ’عمران خان نے ریاست کے تقدس اور رٹ کو چیلنج کیا‘Node ID: 750861
-
حکومت سیاسی جماعتوں کی ملاقات کی تاریخ اور مقام دے: فواد چوہدریNode ID: 750896
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست پرکچھ آفس اعتراضات تھے وہ دور ہوگئے؟ اس پر خواجہ حارث نے بتایاکہ بائیو میٹرک اعتراض دور کردیا گیا ہے۔ یہ بھی اعتراض تھا کہ جو معاملہ پہلے طے ہو چکا وہ دوبارہ کیسے سنا جا سکتا ہے۔ عدالت نے معاملہ طے نہیں کیا، ٹرائل کورٹ کو بھجوایا تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو کہا تھا کہ وہ انڈرٹیکنگ کے معاملے کو دیکھے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ انڈرٹیکنگ سے مطمئن نہیں ہوئی۔ ’عمران خان خود رضاکارانہ طورپرعدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ انڈر ٹیکنگ ناصرف موجود ہے بلکہ ہم نے ایک اور درخواست بھی دی ہے۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ اب آپ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں اور یقین دہانی کرا رہے ہیں۔‘
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت وارنٹ معطل کردے تاکہ کل پیش ہو سکیں۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے کیس میں عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا اور کہا کہ عمران خان کو کل عدالت پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور اسلام آباد پولیس سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ جان لیں کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کے سامنے بیان کے مترادف ہے۔ اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کے نتائج ہوں گے۔ اگر خلاف ورزی کی گئی تو پھر توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔‘
