Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمان پارک میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ، حقیقت کیا ہے؟

پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات نے زمان پارک میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے دعویٰ کیا ہے کہ ’زمان پارک میں ایک دہشت گرد بھی موجود تھا جو آٹھ سال کی سزا بھی کاٹ چکا ہے۔‘ 
عامر میر نے مزید کہا کہ ’اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی زمان پارک میں موجود ہیں، ان میں صوفی محمد کا ایک رشتہ دار بھی شامل ہے۔‘
جمعرات کو آئی جی پولیس پنجاب کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ دہشت گرد کا تعلق کالعدم تحریک نفاذِ شریعت محمدی سے ہے اور یہ آٹھ سال جیل بھی کاٹ چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’زمان پارک آپریشن مکمل ہوگا تو ساری تفصیلات سامنے لائیں گے کیونکہ تشدد کے واقعات میں پولیس کے درجنوں جوان زخمی ہوئے۔‘
پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’ہماری فورس جب بھی زمان پارک کی طرف گئی حکومت نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔‘ 
عامر میر نے مزید کہا کہ ’پولیس جب بھی زمان پارک کی طرف گئی ان کے پاس ڈنڈوں کے سوا کوئی اسلحہ نہیں تھا۔‘
عامر میر کی جانب سے کیے گئے دعوے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ ان کے دعوے میں کتنی سچائی ہے۔
اس حوالے سے مختلف سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایک تصویر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ ’زمان پارک میں موجود یہ شخص کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رکن رہے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ ’اقبال خان کا شمار کالعدم تنظیم کے سربراہ صوفی محمد کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔‘

عامر میر کا کہنا ہے کہ ’زمان پارک میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد موجود ہیں‘ (فوٹو: سکرین گریب)

دی کنگ میکر نامی ہینڈل نے اقبال خان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ موصوف جو اس وقت زمان پارک میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو متحرک کر رہے ہیں ان کا نام اقبال خان ہے اور یہ سوات والے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بانی صوفی محمد کے بہت قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ دہشت گردی کے زمانے میں یہ اغوا برائے تاوان کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ریاست نے انہیں 9-8 سال قید رکھا۔‘
پشاور کے صحافی محمود جان بابر نے لکھا کہ ’سزا کاٹنے کے بعد  بندوق رکھ کر سیاسی کارکن کے طور پر زندگی گزارنے والا عسکریت پسند نہیں کہلاتا، عسکریت پسند وہ ہوتا ہے جو بندوق اٹھا کر ریاست کو چیلنج کرے۔‘
میرا کسی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا: اقبال خان
دوسری جانب اقبال خان نے جمعرات کے روز ایک ویڈیو بیان میں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی سے اپنے تعلق کی تردید کی۔
میڈیا کو جاری ویڈیو بیان میں محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ’ان کا کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ میرا 2022 سے قبل کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 2022 میں میں پی ٹی آئی میں شامل ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ عمران خان کی کال پر زمان پارک میں موجود ہیں۔’میں پی ٹی آئی کا ورکر ہوں، الیکڑانک میڈیا پر میرے خلاف سازش ہو رہی ہے۔‘
اقبال خان کا کہنا ہے کہ ’ایک خاص طبقہ ان کی ذاتی اور پی ٹی آئی کی مخالفت کی وجہ سے میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔‘
اقبال خان کون ہے؟
سینیئر تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اقبال خان کا تعلق ضلع سوات کے گاؤں فتح پور سے ہے۔‘
’اقبال خان تربیت یافتہ جہادی ہیں جنہوں نے 1995 میں تحریک نفاذ شریعت محمدی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اقبال خان تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔‘
عقیل یوسفزئی کے مطابق ’عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ سوات میں معاہدے کے دوران اقبال خان نے اہم کردار ادا کیا تھا اور جب سوات میں آپریشن ہوا تو وہ افغانستان چلے گئے تھے۔‘
’اس کے بعد وہ گرفتار ہوئے اور نو سال سے زائد عرصے تک جیل میں رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے معاہدے کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بعد اقبال خان کو بھی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔‘ 
تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ ’اقبال خان نے رہائی کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت کرلی تھی۔‘ 
سوات کے مقامی صحافی انور انجم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اقبال خان سوات میں کالعدم تنظیم کے متحرک رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے تھے۔‘

شیئر: