پاکستان بدل رہاہے اور شدت پسند گروہ پسپاہورہے ہیں،آخری معرکہ برپا ہے اور بھرپورنفسیاتی جنگ جاری ہے
* * * * ارشادمحمود* * * *
جمعیت علمائے اسلام کے سینیئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ غیر متوقع نہ تھا۔گزشتہ چند ماہ کے دوران مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی کے دیگر قائدین نے پارٹی کی فرقہ وارانہ شناخت کو بدلنے کی شعوری اور مسلسل کوشش کی۔اپنی صد سالہ تقریبات میں بشپ آف پاکستان کو نہ صرف مدعو کیا بلکہ ان سے خطاب بھی کرایا۔اسی اجتماع میں پرتشدد طریقوں سے سیاسی یا مذہبی مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں کی مذمت کی گئی۔ان گروہوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی جو تخریب کاری یا دشت گردی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیںلیکن جمعیت کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا دم بھرتے ہیں۔پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم اور معاشرے کو ایک لڑی میں پرونے کی ان کوششوں کو ٹھنڈے پیٹو ں کیسے برداشت کیا جاسکتاتھا؟یہ اتفاق ہے کہ غفور حیدری دشمنوں کا پہلا ہدف بن گئے۔ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔ فضل الرحمن کا کھلے عام دہشتگردوں کی مذمت کرنا، ان کے طریقہ کار کو غیر اسلامی اور غیر مہذب قراردینا ایک غیر معمولی سیاسی پیشرفت قراردی جاتی ہے۔ ماضی میں ان جماعتوں نے دہشت گردی کی سرپرستی کی یا پھران کے جرائم پر پردہ ڈالاتھا۔بسا اوقات امریکہ کی نفرت یا مخالفت کے نام پر بے گناہوں کے خون سے لتھڑے ہوئے چہروں کو گلے بھی لگایا۔اب گئے وقت کو آواز دینے کا کچھ حاصل نہیں۔مولانا فضل الرحمن نے محسوس کیا کہ پاکستان کی بقااور سلامتی سے ہی ان کی سیاست اور پارٹی کا مفاد وابستہ ہے چنانچہ انہوں نے جے یو آئی کے مدارس میں بھی اصلاح احوال کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانیوالوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔معلمین کو مائل کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے بقائے باہمی کے پہلوؤں کو جاگر کریں۔ مدارس جو کل تک دہشتگردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتے اور ان کے اقدامات کو عقلی اور مذہبی استدلائل فراہم کرتے تھے،اب تشدد سے دوری اختیار کرتے جارہے ہیں۔یہ رجحان القاعدہ اور تحریک طالبان کیلئے سوہانِ روح ہے۔القاعدہ کی اعلیٰ سطحی قیادت میں بہت ذہین دماغ پائے جاتے ہیںجو لمبی اور دور رس منصوبہ بندی کرتے ہیں۔وہ سائنسی انداز میں کام کرتے ہیں۔جے یو آئی اگر ان کے ہاتھ سے نکل جائے تو پاکستان کے سب سے فعال مذہبی طبقہ پر سے انکی گرفت اکھڑجائیگی اور انہیں مفت کے پیادے دستاب نہ ہوسکیں گے چنانچہ وہ جے یو آئی کی لیڈر شپ کوخوف زدہ کرنے کی مہم پر اترآئے ہیں تاکہ جے یو آئی فرقہ وارانہ شناخت سے اوپر اٹھ سکے اور نہ ہی تشدد پسند گروہوں کی سرپرستی سے دست سے دستکش ہو سکے۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ دکھ کی اس گھڑی میں ساری ملکی سیاسی قیادت مولانا فضل الرحمن کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔آصف علی زرداری اظہار ہمدردی کرنے انکی رہائش پر تشریف لے گئے۔دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی نہ صرف حملے کی مذمت کی بلکہ مولانا کے ساتھ بھر پوراظہار یکجہتی کیا۔کچھ عرصہ قبل مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو شہید کیا گیا تو پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔اس پر حملے کی بھی بھرپور مذمت کی گئی۔
قاتلوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ملالہ یوسف زئی نے کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کیاتو ملک کے طول وعرض میں خوشی کی لہر دوڑی۔ اسے پاکستان کی قابل فخر بیٹی قراردیاگیا۔ پاکستان بدل رہاہے اور شدت پسند گروہ پسپاہورہے ہیں۔آخری معرکہ برپا ہے اور بھرپورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔اس لڑائی میں جس فریق کی آنکھ پہلے جھپکے گی وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔اہل پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف اس 17سالہ طویل جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔44 ہزار شہری جاں بحق ہوئے۔دفاع وطن کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے22 ہزار جوانوں نے جان قربان کی۔اتنی قربانی کے بعد اس مشن کو ادھورا کیسے چھوڑا جاسکتاہے؟ کامیابی او رکامرانی کی کلید سیاسی استحکام اور قومی اتحاد میں پوشیدہ ہے۔
سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک صفحہ پر جمع ہوئے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔یہ مقام ِشکر ہے کہ ایک مختصر سی الجھن کے بعد عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان تعلقات میں ہم آہنگی پید اہوچکی ہے۔ یہ ہم آہنگی کچھ عناصر کو سخت کھٹک رہی ہے۔سوشل میڈیا پر چلنے والی بحثیں اس امرکی مظہر ہیں کہ کوئی ہے جو عسکری اور سیاسی قیادت کو لڑانا چاہتاہے،جو آگ بھڑکا رہاہے۔ اعترازاحسن مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر مستعفی ہوجائیں کچھ اور عقاب صفت دانشوروں اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ حکومت کو عسکری قیادت کو نکیل ڈالنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی بحث ومباحثے نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ رائے عامہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں گہری دلچسپی لیتی ہے اور وہ ان تعلقات کو مثبت انداز سے آگئے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔سول ملٹری تعلقات پاکستان کی سیاست میں ابھرنے والا کوئی نیا موضوع نہیں۔60 کی دہائی سے سیاسی امور میں فوجی مداخلت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے مابعد سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کی ایسی زبردست رسہ کشی شروع ہوئی کہ محض 7 برس کے عرصے میں 6وزیراعظم تبدیل کئے گئے۔ ایک صاحب محض ایک ما ہ29 دن تک وزیراعظم پاکستان رہے۔
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد ملک میں جمہوری نظام کا ایک تسلسل قائم ہوا۔اسکا کریڈٹ زیادہ تر پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کو جاتاہے کہ انہوں نے ہر آڑے وقت میں(ن) لیگ کی حکومت کا ساتھ دیا اور جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دیا۔اگر پی پی پی کی قیادت بالغ نظر کا مظاہرہ نہ کرتی تو کب کا جمہوری نظام کا بوریا بستر گھول ہوچکا ہوتا۔ پاکستان میں اکثر لوگ ترکی کی مثال دیتے ہیں کہ صدر طیب رجب اردوگان نے سویلین بالادستی ممکن بنادی لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ ایسے تجزیہ کار ترکی کے جغرافیائی اور سیاسی حالات کا پاکستان سے درست تقابل نہیں کرتے۔ترکی کو وہ مسائل درپیش نہیں رہے جو پاکستان کی بقا اور سلامتی کو روزاوّل سے ہیں۔خاص طور پر گزشتہ 17سال سے پاکستان عملاًحالت جنگ میں ہے۔اب عالم یہ ہے کہ اسے دلی، کابل اور تہران تینوں اطراف سے گھیرا جارہاہے۔اس ماحول کو پیدا کرنے میں ہماری اپنی بھی غلطیاں ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ وقت باہم دست وگریبان ہونے کا نہیں۔