Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی پنجاب میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ کیسے ہو رہا ہے؟   

پولیس کے مطابق سینکڑوں ایکڑ رقبہ کلیئر کر لیا گیا ہے۔ فوٹو: پنجاب پولیس ٹوئٹر
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے صوبے کے جنوب میں سندھ کے ساتھ متصل کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف اتوار سے ’گرینڈ آپریشن‘ شروع کر رکھا ہے۔ 
اتوار کو پولیس نے اس علاقے میں آپریشن کے دوران ایک مبینہ ڈاکو کو ہلاک  کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ 
آئی جی پولیس پنجاب کے ترجمان نایاب حیدر نے منگل کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کچے کے علاقے میں آپریشن تیسرے روز میں داخل ہو گیا ہے اور پولیس کے تازہ دم دستوں کی پیش قدمی جاری ہے۔‘ 
سینکڑوں ایکٹر علاقہ کلیئر قرار: پولیس 
ترجمان آئی جی کی جانب سے اردو نیوز کو دی گئی معلومات کے مطابق ’ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب مقصود الحسن، آرپی او بہاولپور رائے بابر سعید اور ڈی جی خان کیپٹن ریٹائرڈ سجاد حسن خان بھی کچے کے علاقے میں موجود ہیں۔‘
’پولیس نے مجرموں کے ٹھکانے مسمار کرتے ہوئے نذر آتش کرنے کے بعد سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل اندرون کچے کا رقبہ سرچ آپریشن کے بعد کلیئر قرار دے دیا ہے۔‘ 
پنجاب پولیس کے مطابق ’سندھ پولیس کے ساتھ بروقت معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے مجرمان کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔‘ 
’اب تک آپریشن کے دوران ایک خطرناک ڈاکو ہلاک، چھ گرفتار، سینکڑوں ایکڑ رقبہ سرچ آپریشن کے بعد کلیئر کروا لیا گیا۔‘ 
دوسری جانب منگل کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے رحیم یار خان، کچے کے علاقے میں آپریشن کو کامیاب قرار دیتے ہوئے پولیس افسران کو مبارکباد پیش کی ہے۔ 
وزیر داخلہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس آپریشن میں اغوا شدہ دو معصوم بچوں کی زندہ سلامت بازیابی پنجاب پولیس کی عمدہ کارکردگی کی عکاس ہے۔‘ 
’وفاقی حکومت پوری طرح سے آپریشن کے ساتھ کھڑی ہے۔ وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔‘
قبل ازیں انسپیکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے پریس کانفرنس نے بتایا تھا کہ ’اس آپریشن کے لیے 2000 پولیس اہلکار بھیجے گئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس آپریشن میں ایک ہزار پولیس اہلکار حصہ لیں گے۔‘ 
رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں جاری ’گرینڈ آپریشن‘ کی تفصیلات جاننے کے لیے اردو نیوز نے مقامی صحافیوں سے رابطہ کیا۔
رحیم یار خان کے صحافی چوہدری اشفاق نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ آپریشن جس علاقے میں ہو رہا ہے، یہ صوبہ پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ایک زرخیز علاقہ ہے جہاں گندم، کپاس اور گنے کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’جن افراد کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے انہیں ڈاکو کہا جاتا ہے لیکن ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اغواء برائے تاوان کی کارروائیاں کرتے ہیں۔‘ 
ایک اور مقامی صحافی اویس اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ آپریشن پہلے انٹیلیجنس بنیادوں پر ہوتا تھا لیکن اب چونکہ گندم کا موسم ہے تو پولیس نے باقاعدہ ’گرینڈ آپریشن‘ شروع کیا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’کچے کے جن علاقوں میں آپریشن ہو رہا ہے یہ تھانہ بھونگ، تھانہ کوٹ سبزل اور تھانہ ماچکہ کے تحت آتا ہے۔ تھانہ ماچکہ کچے کے علاقے کے اندر واقع ہے۔‘ 
گندم کے موسم میں آپریشن کیوں؟ 
پولیس کی جانب سے گندم کی فصل کے تیار ہونے کے اوقات میں آپریشن شروع کرنے پر سوال بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا خیال ہے یہ موسم ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے موزوں رہتا ہے۔ 
اویس اسلم نے بتایا کہ ’اس علاقے میں دو فصلیں گندم اور گنا ہوتی ہیں۔ گنے کے موسم میں پولیس کے لیے آپریشن مشکل ہوتا ہے۔ گنے کی فصل کی اونچائی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اور کئی ایکٹر تک پھیلی فصل کے ایک جانب سے اگر ڈاکو داخل ہوں تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے بہت آگے تک کارروئیاں کر سکتے ہیں۔‘
 
پولیس کا کہنا یہ ہے کہ ماضی میں گنے کی موسم میں کیے گئے آپریشن میں ان کا کافی نقصان ہوا جبکہ گندم کے سیزن میں نسبتاً زیادہ آسانی سے آپریشن کیا جا سکتا ہے۔‘ 
نجی نیوز چینل کے مقامی نمائندے فرحان اقبال نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس علاقے میں جب گندم کی فصل تیار ہوتی ہے تو زمینداروں کی شکایت رہتی تھی کہ ڈاکو انہیں کھیتوں سے گندم اٹھانے نہیں دیتے اور بھتے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس لیے بھی پولیس کو وہاں جانا پڑتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بعض مرتبہ پولیس کی گاڑیوں میں گندم کی بوریاں دیکھی گئیں لیکن پانچ چھ برس سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔‘ 
صحافی چوہدری اشفاق نے پولیس کی کچے کے علاقے میں پیش قدمی کے حوالے سے بتایا کہ ’پولیس اس علاقے میں مختلف چیک پوسٹیں قائم کرتی ہے لیکن جب یہاں دریا کا پانی آ جاتا ہے تو وہ ختم ہو جاتی ہیں۔‘ 
اس وقت پولیس کی کتنی نفری کچے کے علاقے میں تعینات کی گئی ہے؟ اس سوال کے جواب میں صحافی اویس اسلم نے بتایا کہ ’پولیس کے مطابق پہلے سے یہاں چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ پانچ ہزار دوسرے اضلاع سے منگوائے گئے ہیں، لیکن ہمارے حساب سے یہاں تین سے چار ہزار پولیس اہلکار موجود ہیں۔‘ 

آپریشن کے لیے 2000 پولیس اہلکار علاقے میں بھیجے گئے ہیں۔ فوٹو: پنجاب پولیس

ڈاکو فور جی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں 
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں چند مغوی افراد اپنی بازیابی کے لیے فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  
اس کے علاوہ ڈاکوؤں کی جانب سے شہریوں کو شادی، سستے ٹریکٹر اور بولان گاڑیاں دینے کی پیشکش کے ذریعے اغواء کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے۔ 
ڈاکوؤں کے زیراثر علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت اور جرائم میں ان کے استعمال سے متعلق سوال کے جواب میں اقبال نے کہا کہ ’اس پورے علاقے میں ناصرف موبائل فون سروس میسر ہے بلکہ فور جی انٹرنیٹ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکو لوگوں کو اغواء کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر وائرل کرتے ہیں۔‘ 
ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ مقامی صحافی فرحان اقبال نے بتایا کہ ’ڈاکو اور اغواء کار سوشل میڈیا پر اشتہار لگاتے ہیں کہ تُوڑی(گندم سے بننے والا چارہ) 250 روپے فی من دستیاب ہے حالانکہ اس کی اصلی قیمت 600 روپے فی من ہے۔ اسی طرح وہ 16 لاکھ کا ٹریکٹر 11 لاکھ میں دینے کی پیشکش کرتے ہیں جس سے کئی دکاندار اور عام افراد لالچ میں آ کر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔‘ 
تھانوں کی حدود کا معاملہ 
فرحان اقبال نے اردو نیوز کو بتایا ہے ’کچے کی علاقے کی تقسیم بھی کافی پیچیدہ ہے۔ یہی علاقہ عملاً تین صوبوں کے بارڈرز کے ساتھ متصل ہے۔ یہاں آپ ایک ایکڑ آگے چلتے ہیں تو سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب اتنا ہی بڑھتے ہیں تو پنجاب کا ضلع صادق آباد شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے پولیس کو اپنے کام میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ماضی میں جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو تھانوں کی حدود میں کچھ ردوبدل کیا گیا تھا تاہم تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی وہ علاقے دوبارہ پرانی انتظامی تقسیم کے تحت کر دیے گئے۔ اور ایسا یہاں کے سرداروں کی ایماء پر ہوا۔ اس کے بعد سے پولیس کی نقل و حرکت محدود ہو گئی۔‘ 

کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف اتوار سے آپریشن جاری ہے۔ فوٹو: پنجاب پولیس

پولیس شہریوں کو کیسے متنبّہ کرتی ہے؟ 
فرحان اقبال نے مزید بتایا کہ عام طور پر یہاں سے جو بھی گاڑی کچے کی جانب جاتی ہے، پولیس اس گاڑی کے مسافروں کو خطرے سے آگاہ کرتی ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کچے کی جانب جانے والی گاڑیوں کے لیے اعلان کرتی ہے کہ اگر آپ کو سستے ٹریکٹر، تُوڑی یا کسی لڑکی سے شادی کے لیے بلایا گیا ہے تو یہ آپ کو ٹریپ کرنے (پھنسانے) کی کوشش ہو سکتی ہے۔‘ 
’لیکن سمجھ نہیں آتی ہے کہ لوگ پھر بھی اس جانب چلے جاتے ہیں۔‘ 
اردو نیوز نے رحیم یار خان پولیس کے حکام سے اس حوالے سے رابطے کی کوشش کی لیکن بات نہ ہو سکی۔ 
بھونگ کے اے ایس پی شاہزیب چاچڑ نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’میٹنگ میں ہوں۔ ایک گھنٹے بعد کال کریں‘ تاہم ان سے دوبارہ رابطے کی کوشش پر بھی ان سے بات نہ ہو سکی۔ 
اس وقت کون کون سے گینگ سرگرم ہیں؟ 
مقامی صحافیوں کے بقول اس وقت کچی جمال میں اب ڈاکو زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں مشہور چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ اس وقت جو گینگز متحرک ہیں ان میں لُنڈ گینگ، اندڑ گینگ، شَر گینگ اور دُولانی گینگ نمایاں ہیں۔

شیئر: