تیونس کی 50 سالہ خاتون سحری میں جگانے کا کام کیوں کر رہی ہیں؟
تیونس کی 50 سالہ خاتون سحری میں جگانے کا کام کیوں کر رہی ہیں؟
منگل 18 اپریل 2023 6:27
گھر والوں کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہوں۔ (فوٹو الاقتصادیہ)
تیونس کی خاتون منیرہ کیلانی رمضان المبارک کے دوران ہر رات شہر کی سڑکوں پر گھوم پھر کر لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کا کام کرتی رہی ہیں۔
عربوں میں سحری کے لیے جگانے والے کو ’مسحراتی‘ کہا جاتا ہے۔ منیرہ کیلانی اپنے پڑوسیوں کو جگانے کے لیے مسحراتی کے روایتی کردار کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
الاقتصادیہ کے مطابق تیونس میں مسحراتی کو ’بوطبیلہ‘ بھی کہا جاتا ہے جس میں ڈھول (طبلہ) بجا کر سحری کے لیے جگایا جاتا ہے اس لیے جگانے والے کو مسحراتی اور بوطبیلہ بھی کہتے ہیں۔
قدیم زمانے سے سحری کے لیے جگانے کی رسم عرب ملکوں میں چلی آرہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ماحول میں مسحراتی کا کردار ماند پڑتا جا رہا ہے۔
منیرہ کلانی نے کہا کہ ’مسحراتی کا پیشہ اپنے باپ سے ورثے میں ملا ہے۔‘
منیرہ کا کہنا ہے کہ ’میرے والد ڈھول بجا کر لوگوں کو سحری کے لیے جگاتے تھے میں نے یہ ہنر انہی سے سیکھا ہے اور اب ان کی جگہ میں اپنے پڑسیوں کو جگانے کا کام کر رہی ہوں۔‘
منیرہ کا کہنا تھا کہ ’کبھی سوچا نہ تھا کہ مسحراتی کا پیشہ اپناؤں گی تاہم معاشی حالات نے مجھے اپنے گھر والوں کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے انتظامات چلانے کے لیے یہ پیشہ اپنانے پر مجبور کر دیا۔‘
منیرہ کیلانی کی عمر 50 سال ہے اور ان کا ایک سگا بھائی بیمار ہے۔ تیونس میں عام طور پر یہ مشغلہ مردوں کے لیے خاص مانا جاتا ہے۔
منیرہ کیلانی نے بتایا کہ ’جب بھی رمضان آتا ہے تو میں بہت زیادہ خوش ہوتی ہوں، اس سے مجھے روزگار مل جاتا ہے۔ 250 دینار کی آمدنی معمولی نہیں ہوتی۔ بھیک مانگنے یا چوری کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے کہ کسی جائز کام سے کچھ آمدنی حاصل کی جائے۔‘
منیرہ نے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں بچی تھی تو والد کے پیچھا چلا کرتی تھی۔ والد مسحراتی کی حیثیت سے گھر سے نکلتے ڈھول بجاتے۔ میں ڈھول بجانے کا طریقہ ان سے سیکھتی۔ میرے والد ہر گھر کے سامنے کھڑے ہوکر صدا لگاتے کہ ’بیدار ہوجاؤ سحری کرلو‘ میں بھی یہی دو جملے دہراتی ہوں۔‘
مسحراتی کے پیشے پر مردوں کی اجارہ داری کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر منیرہ نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ یہ پیشہ مردوں کے لیے خاص رہا ہے لیکن میں اپنی فیملی اور اپنے بھائی کی خاطر مسحراتی بنی ہوئی ہوں میں ان کی خاطر یہ قربانی دے رہی ہوں۔‘
منیرہ نے بتایا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ پڑوسی سحری کے لیے میری آواز کےعادی ہو گئے ہیں۔ اگر کسی رات بیماری کی وجہ سے میں سحری جگانے کے لیے نہیں نکلتی تو ہمسائے میری خیریت دریافت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔‘
منیرہ نے بتایا کہ وہ رات تین بجے گھر سے نکلتی ہیں اور مختلف محلوں کے چکر لگاتی ہے اور ڈھول بجا کر سحری کے لیے جگاتی ہیں۔
منیرہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ رات میں لوگوں کو سحری کے لیے جگاتی ہیں اور دن میں مختلف مقامات سے بچی ہوئی روٹیاں جمع کرتی ہیں۔
’اس سے گھر والوں کے کھانے پینے کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ ہمیں کھانے میں نہ تو گوشت نصیب ہے اور نہ ہی مرغی۔ بہت مشکل سے سبزیوں کا انتظام کر پاتی ہوں اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں یہ بھی نصیب ہے۔‘
واٹس ایپ پر سعودی عرب کیخبروں کے لیے”اردو نیوز“گروپ جوائن کریں