’پراٹھے کے بغیرسحری بھی کوئی سحری ہے؟‘
جمعرات 6 مئی 2021 19:13
شاہد عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں سوشل میڈیا پر گزشتہ چند روز سے پراٹھا ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے بھی زیربحث ہے (فوٹو بشکریہ: خرم امین)
رمضان کے دوران جہاں عبادات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے وہیں سحر و افطار کے کھانوں کا انتخاب بھی خصوصی توجہ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں مشہور کھانے جہاں رمضان دسترخوان کی زینت بنائے جاتے ہیں، وہیں کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یکساں مقبول مانی جاتی ہیں۔
پراٹھا بھی انہی میں سے ایک ہے جو ملک کے مختلف دیہی و شہری حصوں میں عمر کے فرق کے بغیر بہت سے افراد کا من بھاتا انتخاب ٹھہرتا ہے۔ کہیں پراٹھا دیسی گھی کے ساتھ، کہیں سالن اور کہیں صرف چائے کے ساتھ رمضان کے دسترخوان پر موجود رہتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے افراد اپنی ٹائم لائنز کو سحری میں پراٹھے کے عمومی ذکر سے بھی سجائے ہوئے ہیں۔
نور اکبر نامی صارف نے لکھا کہ ’میں سحری کےوقت باقاعدگی سے سالن کے ساتھ ایک ہلکا پراٹھا کھاتا ہوں، آج بمشکل آدھا کھا سکا تو بیگم نے پریشان ہو کر پوچھا یہ کیوں؟
نصف پراٹھا کھا سکنے پر جہاں متعدد افراد نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو ’سحری میں پورا پراٹھا کھانے‘ کا اعلان کیے بغیر نہ رہے۔
سالار سلیمان نامی صارف نے لکھا کہ ’میں پہلے سحری میں آدھا پراٹھا کھاتا تھا، آج دیسی گھی کا پورا پراٹھا کھاؤں گا۔‘
پراٹھے پر گھی کی موجودگی کو کچھ لوگ معدہ کے لیے گرانی کا باعث بتاتے یا وزن بڑھنے سے روکنے کے خواہشمند اس سے بچتے ہیں لیکن جنہیں یہ مرغوب ہیں ان کے پاس اپنے موقف کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں۔
امبرین نامی صارف نے لکھا کہ ’میں افطار میں پہلے رمضان سے چار پکوڑے، تین سموسے ایک گلاس شیک کے ساتھ کھا رہی ہوں اور سحری میں ایک گھی کا پراتھا کھا رہی ہوں ابھی تک میرا وزن 47 کلو ہے۔‘
پراٹھے کے حق میں جاری گفتگو کے دوران کھانا ہضم ہونے کا ذکر ہوا تو صارفین ہاضمے کے مواقع کا ذکر کرنا بھی نہ بھولے۔ نواب صاحب نامی ایک ٹویپ کا کہنا ہے کہ ’سحری تو تبھی ہضم ہو جاتی ہے جب سننے کو ملتا ہے کہ حضرات سحری کا ٹائم ختم ہونے میں پانچ منٹ رہ گئے ہیں‘۔
رمضان کے دوران دسترخوان پر پراٹھا کہیں دیسی گھی کے ساتھ استعمال ہوتا تو کہیں چائے کا ساتھی بنتا ہے۔ چائے کے ایسے ہی شائق ’چائے کو سحری کی عادت‘ جب کہ ’افطار میں عشق‘ قرار دیتے ہیں۔
ٹی ٹائم پوئٹری کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ ’سحری کی چائے عادت ہے اور افطاری کے بعد چائے عشق ہے۔‘
پراٹھے سے متعلق گفتگو رمضان سے آگے بڑھ کر کھانے کے عام معمول تک پہنچی تو کچھ صارفین پراٹھا کھانے کے بہتر وقت کے تعین سے بھی پیچھے نہ رہے۔
پراٹھے کی عام دستیاب اقسام
پاکستان کے دیہاتوں میں کچھ عرصہ قبل تک پراٹھے کو سحری یا ناشتے کا اہم جزو مانا جاتا تھا، تاہم آہستہ آہستہ چائے فروخت کرنے والے ہوٹلز اور ’نان شاپس‘ کی تعداد میں اضافے کے بعد پراٹھا اب دن کے دیگر اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ گھی والے، قیمہ، گوبھی یا آلو کے روایتی پراٹھوں کے ساتھ ساتھ اب چاکلیٹ پراٹھا، پیزا پراٹھا، چیز پراٹھا اور درجن بھر دیگر اقسام بھی عام دستیاب ہوتی ہیں۔
ملک کے جنوبی صوبے سندھ کے شہر حیدرآباد کا دلہن پراٹھا ہو یا کراچی کا لچھے دار پراٹھا، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بڑے پراٹھے ہوں یا ملک کے مختلف حصوں میں موجود کوئٹہ چائے ہوٹلز کا مخصوص انڈہ پراٹھا، کھانے والوں کی حس ذائقہ کی تسکین کے لیے یہ گھروں کے ساتھ ساتھ اب کھانے پینے کے مراکز پر بھی عام دستیاب رہتے ہیں۔
پراٹھے کا نام کیسے پڑا؟
لسانیات یا اردو زبان میں دلچسپی رکھنے والوں کے مطابق پراٹھا سنسکرت کا لفظ ہے۔ یہ دو لفظوں پرات اور آٹے سے مل کر بنا ہے۔
برصغیر کو پراٹھے کی ابتدا بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ گندم کی پیداوار والے ملکوں میں شوق سے کھائی جانے والی غذا ہے۔
پراٹھے سے متعلق ایک اور دلچسپ پہلو اس کے مختلف نام بھی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پراٹھا، پروٹھا، پرونٹھا جیسے ناموں سے شناخت کی جانے والی اس غذا کو جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں فراٹا، پولاٹا اور پروٹا بھی کہا جاتا ہے۔