Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی ایشیا میں کم عمر دُلہنوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے: اقوام متحدہ

دنیا بھر سے 49 فیصد چائلڈ برائیڈز جنوبی ایشیا میں ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری نئے اعدادوشمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں ’چائلڈ برائیڈز‘ یعنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کی شرح دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف نے بدھ کو دیٹا جاری کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 29 کروڑ کم عمر دلہنیں یعنی دنیا بھر میں سے 45 فیصد جنوبی ایشیائی خطے میں ہیں۔
یونیسیف کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر نوآلا سکنر نے جاری بیان میں کہا کہ ’کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، ان کی صحت اور فلاح و بہبود کو خطرات لاحق ہوتے ہین جبکہ مستقبل پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔‘
یونیسیف کی جانب سے جاری نئی سٹڈی میں بنگلہ دیش، انڈیا اور نیپال میں 16 مقامات پر مختلف افراد سے انٹرویوز اور بات چیت کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ کورونا میں لاک ڈاؤن کے دوران پڑھائی کے محدود ذرائع ہونے کے باعث متعدد والدین کے نزدیک بچیوں کی شادی ہی بہترین آپشن تھا۔
اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق عالمی وبا کے دوران مالی دباؤ نے بھی والدین کو بچیوں کی شادی پر مجبور کیا تاکہ گھر کے اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔
یونیسیف نے کم عمری میں شادی کے مسئلے کا حل بتاتے ہوئے تجویز دی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے اقدامات اٹھائے جائیں اور ہر بچے کے تعلیم کے حق کا تحفظ کیا جائے اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کے علاقائی ڈائریکٹر بیورن اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مزید کرنا چاہیے اور بچیوں کو تعلیم کے ذریعے بااختیار بنانے کے لیے مضبوط شراکت داری کی ضرورت ہے، بچیوں کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے، اور کمیونیٹیوں کو بھی سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مل کر اس مسئلے کو حل کریں جس کی جڑیں معاشرے میں کافی گہری ہیں۔‘
خیال رہے کہ نیپال میں قانون کے تحت بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 20 جبکہ انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں 18 اور افغانستان میں 16 ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ’بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے جبکہ صوبہ سندھ میں 18 برس ہے۔‘

شیئر: