یہ وہ ملازمین ہیں جنہیں کانٹریکٹ پر بہت کم تنخواہ پر بھرتی کیا جاتا ہے لیکن ان کی ڈیوٹی چیلنجز سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان کا کام شام ڈھلتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
موسم، جنگلی جانور اور ڈاکو
ہر نائٹ پیٹرولر کو چھ کلومیٹر کے ٹریک پر گشت کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اَپ ٹریک کی جانب سے چلنا شروع کرتا ہے جبکہ دوسرا ڈاؤن ٹریک سے گشت کا آغاز کرتا ہے۔
پھر رات کے کسی پہر درمیانی مقام پر یہ دونوں ملتے ہیں۔ چند لمحے سستاتے اور گپ شپ لگاتے ہیں۔ اگر موسم سرد ہو تو لکڑیاں جلا کر کچھ دیر حرارت لیتے ہیں اور پھر ڈنڈا اٹھا کر واپس ان ہی راستوں پر پلٹ جاتے ہیں جہاں سے وہ آئے تھے۔ ٖ
چوروں، تخریب کاروں اور جنگلی جانوروں سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس صرف دو ہتھیار ہوتے ہیں۔ ایک ٹارچ اور دوسرا ڈنڈا۔
پیٹرولرز کی ڈیوٹی میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ریلوے ٹریک کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچنے کی صورت میں پیچھے سے آنے والی ٹرینوں کو بروقت آگاہ کریں تاکہ بڑے حادثات کو روکا جا سکے۔
ریلوے لائنز پر بم دھماکے
خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں ٹریک پر بم دھماکوں کی وارداتوں کی روک تھام اور ان کی بروقت آگاہی ان کا اہم ٹاسک ہوتا ہے۔
ان علاقوں میں شرپسند عناصر بارودی مواد نصب کر دیتے ہیں جس سے اکثر ٹریک متاثر ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ پیٹرولر دھماکوں سے قبل آگاہ کر دیتے ہیں لیکن اگر ٹریک پر دھماکہ ہو جائے تو ان کی ٹیم کی ڈیوٹی مزید سخت ہو جاتی ہے۔
دھماکے کے فوراً بعد متاثرہ مقام کی نشاندہی کا کام بھی یہی پیٹرولرز انجام دیتے ہیں۔ یہ ٹرینوں کو بروقت روکنے کے انتظامات کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں ان کے پاس مخصوص لائٹیں بھی ہوتی ہیں جن کی مدد سے یہ ٹرین کو ہنگامی بنیادوں پر رُکنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
اب تک درجنوں وارداتوں میں اِن ہی پیٹرولرز کی مدد سے بڑے حادثات پر قابو پایا گیا ہے۔
عاضی نوکری اور معمولی تنخواہیں
ایک جانب اس قدر اہم ذمہ داری اور دوسری جانب یہ حال کہ ان کارکنوں کو دستیاب تکنیکی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پیٹرولرز کے بقول انہیں عارضی بنیادوں پر بھرتی کیا جاتا ہے اور ہر تین ماہ بعد نیا ایگریمنٹ کرنا پڑتا ہے۔
’یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ طویل دورانیے کا کانٹریکٹ لینے کے بعد یہ مستقل ہونے کا مطالبہ نہ کر دیں۔‘
ان چند سو اہلکاروں کو ماہانہ تنخواہ ریلوے افسران کی ماہانہ مُراعات سے کہیں زیادہ کم ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان گمنام سپاہیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جرائم پیشہ افراد کے خلاف نبردآزما ہونا پڑ جاتا ہے اور یہ اپنی جان سے بھی گزر جاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں صادق آباد کے قریب مسلح افراد کے ہاتھوں ریلوے کا ایک پیٹرولر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
نٹ بولٹ اور فِش پلیٹوں کی چوریاں
ریلوے سکھر ڈویژن میں کام کرنے والے نائٹ پیٹرولر زوہیب شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’راتوں کو کام کرنا بہت مشکل ہے۔‘
’ٹریک چیک کرنا ہماری اولین ترجیح ہوتی ہے۔ کسی غیرمعمولی صورت حال میں فوری طور پر ٹرین کو روکنے اور حکامِ بالا تک اطلاع پہنچانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ٹریک سے اکثر چور نٹ بولٹ اور فِش پلیٹیں چُراتے ہیں جس کی روک تھام ہمیں ہی کرنا ہوتی ہے۔ یکم مارچ کو ہمارا ایک ساتھی اسی قسم کی واردات کو ناکام بناتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔‘
زوہیب شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہماری تنخواہ بہت کم ہے اور ہمیں چار چار ماہ تک تنخواہوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔