Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا عمران خان کی رہائی کا حکم، کل ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اصول طے ہے کہ عدالتی احاطے سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ (فوٹو: سکرین گرپب)
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی القادر یونیورسٹی مقدمے میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ جمعے کے روز اسلام اباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں۔
قبل ازیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری پر نیب حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور حکم جاری کیا تھا کہ انہیں ایک گھنٹے میں عدالت عظمٰی میں پیش کیا جائے۔
تاہم انتظامیہ نے سخت سکیورٹی میں عمران خان کو دو گھنٹے بعد سپریم کورٹ میں پیش کیا جس کے فوری بعد سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
عدالت نے عمران خان کو جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ آپ کو ہائی کورٹ کا حکم ماننا پڑے گا۔
جب عدالت نے عمران خان کی گرفتاری غییرقانوی قرار دے دی تو عمران خان نے بنی گالہ اور زمان  پارک جانے کی جازت دینے کی استدعا کر دی۔ تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔  عمران خان کے وکیل کی جانب سے کیس میں مزید وقت لینے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔
عدالت نے حکم دیا کہ ’آی رات عمران خان پولیس لائنز میں ہی رہیں گے۔ عمران خان پولیس لائنز میں رہائشی بنگلے میں رہیں گے۔ عدالت نے کہا کہ عمران خان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔
عدالت نے کہا کہ آئی جی پولیس اسلام آباد کل سکیورٹی فراہم کریں گے۔ عدالت نے عمران خان کو 10 سے 12 افراد  ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان یقینی بنائیں کہ ان کے ورکرز کل عدالت نہ آئے۔ ’عمران خان روک سکتے ہیں وہ اپنے کارکنوں کو کہیں وہ عدالت نہ آئے۔‘ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں کیسے روک سکتا ہوں لیکن کوشش کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کوشش نہیں کریں گے آپ کارکنوں کو روکیں گے یہ عدالتی حکم ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’آپ کو اس قانون کا فائدہ مل رہا ہے جس کو آپ نے چیلنج کیا ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ انہیں ڈندے مارے گئے۔ ایسا تو کسی ایک نارمل کرمنل کے ساتھ بھی کیا جاتا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

جب عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو چیف جسٹس نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔
’ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان یقینی بنائے۔ ’یہ بات کی جا رہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باھر نکلے. ہم اپ کو سننا چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ 9 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے۔ جب ایک شخص عدالت آتا ہے تو اس کا مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔ عمران خان کی گرفتاری کو ہم واپس کر رہے ہیں۔‘
اس دوران عمران خان عمران خان روسٹر پر آگئے اور عدالت کو بتایا کہ انہیں ہائی کورٹ سے اغوا کیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ انہیں ڈندے مارے گئے۔ ایسا تو کسی ایک نارمل کرمنل کے ساتھ بھی کیا جاتا۔
’اس کے بعد مجھے کچھ علم نہیں کیا ہوا، ابھی تک مجھے نہیں پتہ کیا ہوا۔ اگر مجھے گرفتار کرنا ہے تو وارنٹ دکھاؤ گرفتاری دوں گا۔ مجھے کمانڈو ایکشن کرکے سر پر ڈنڈے مارے گئے۔ کرمنل کی طرح مجھے پکڑا گیا۔ جو میرے ساتھ ہوا اس کا ری ایکشن تو آئے گا۔‘

عدالت نے کہا کہ عمران خان کے کیس کی سماعت کل 11 بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد عدالت نے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت میں پیشی کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ عدالت میں لوگ انصاف کے لیے آتے ہیں۔
’مجھے علم ہی نہیں ملک میں کیا ہو رہا تھا، مجھے ایسے پکڑا گیا جیسے دہشت گرد ہوں، میں مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہوگیا۔‘
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اصول طے ہیں کہ عدالتی احاطے سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ 
عدالت نے کہا کہ عمران خان کے کیس کی سماعت کل 11 بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی۔

شیئر: