سُپر پنجابی جس میں ’انڈین پنجابی فلم کی جھلک ملے گی‘
منگل 16 مئی 2023 6:58
قیصر کامران۔ کراچی
’مولا جٹ‘ کی مقبولیت کے بعد ایک بار پھر پنجابی فلموں کا ٹرینڈ چل نکلا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
ایک ایماندار ملازم نے جب مالک کی بے ایمان محبوبہ پر اُنگلی اٹھائی تو مالک نے اسے ہی نوکری سے فارغ کردیا یعنی جیہڑا بولے او ہی کنڈی کھولے۔ کئی سالوں کی ایمانداری کے نتیجے میں نوکری کے سے ہاتھ دھونا اس شخص کے لیے ایسا تھا گویا اس پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ بمشکل ہمت جمع کر کے جب وہ گھر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی کسی غیر مرد کے ساتھ موجود ہے۔ بے روزگاری کے بعد اگر کسی کا بے وفائی سے بھی سامنا ہوجائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مفلسی میں آٹا گیلا ہونا۔
یہ کہانی ہے یہ ابوعلیحہ کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’سپر پنجابی‘ کی جس میں اداکار محسن حیدر عباس اور صائمہ بلوچ نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ فلم کا نام ہی ’سپر پنجابی‘ ہے اسی طرح فلم میں زیادہ تر پنجابی زبان ہی استعمال کی گئی ہے لیکن ایسا نہیں کہ بہت ہی خالص پنجابی بولی گئی ہو۔
یوں لگتا ہے کہ گزشتہ برس ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی بے انتہا مقبولیت کے بعد ایک بار پھر پنجابی فلموں کا ٹرینڈ چلنے والا ہے لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان سینما کی تاریخ میں ایک ایسا بھی دور دیکھا گیا جب زیادہ تر پاکستانی فلمیں پنجابی زبان میں بنائی جاتی تھیں اور اُردو فلمیں آٹے میں نمک کے مترادف ہوتی تھیں لیکن پھر بھی ہماری فلم انڈسٹری کو زوال دیکھنا پڑا۔
تاہم حقیقت پر منبی بات یہ ہے کہ آج بھی اُردو فلموں کے نسبت پنجابی فلمز کی مارکیٹ بہت بڑی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کو لکھا بھی ناصر ادیب نے ہی ہے جو اس سے پہلے ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ جیسی کامیاب ترین فلم لکھ چکے ہیں۔ فلم سُپر پنجابی کی کہانی تو بہت سادہ سنی سنائی معلوم ہوتی ہے لیکن کہانی میں مصالحے کا استعمال کرتے ہوئے جو پنجابی زبان کا تڑکا لگایا گیا ہے اس کے لیے ناصر ادیب صاحب کی تعریف تو بنتی ہے۔
فلم کے مرکزی کردار کو محسن حیدر عباس نے خوبصورتی سے نبھایا ہے پنجابی زبان کا استعمال ہو یا اُردو ان کے ڈائیلاگ ڈیلیوری اور تاثرات بہت کمال تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فلم کے ہدایتکار ابوعلیحہ نے کئی بار اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ انہیں اس فلم کے لیےمحسن کی ہی ضرورت تھی کیونکہ انہیں ایسا بندہ چاہیے تھا جو پنجابی عمدہ طریقے سے بول سکے۔ فلم دیکھ کر سینما ہال سے باہر نکلنے والے کئی شائقین بھی ڈائریکٹر کی اس اس بات کی تائید کرتے نظر آئے۔
فلم میں اداکار ناصر چنیوٹی نے بھی مزاح سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ناصر چنیوٹی نے موقع کی مناسبت سے جو ’جُگتیں‘ لگائیں وہ فلم دیکھنے والوں کو بوریت کا شکار ہونے نہیں دے گی کیونکہ وہ سٹیج ڈراموں میں بھی پرفارم کر چکے ہیں اور اگر آپ سٹیج ڈرامے دیکھتے ہوں تو یہ بات درست ہے کہ ان ڈراموں میں جُگت بازی بہت دلچسپ ہوتی ہے۔
اداکار افتخار ٹھاکر کو رنگین مزاج بزنس مین کے طور پر دکھایا گیا جو اپنی محبوبہ کے عشق میں مبتلا ہے اور ان کی محبوبہ کا کردار ثنا فخر نے ادا کیا ہے۔
فلم کے مخلتف کرداروں کی بات کی جائے تو ان میں دوستی، وفاداری، ایکشن، رومانس اور عورت کے مضبوط کردار کو دکھایا گیا ہے یعنی فلم میں ہر وہ مصالحہ موجود ہے جو کسی چٹ پٹی فلم میں ہونا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فلم میں انڈین پنجابی فلموں کی جھلک ملی۔
فلم دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوگا کہ یہ خالص پنجابی فلم ہے کیونکہ عکسبندی کے لیے جن مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ان سے مختلف ہے جو عام طور پر پنجابی فلموں میں نظر آتے ہیں جیسے کہ کھیت اور گاؤں کے مناظر ہاں البتہ فلم کے گانوں میں دیہی پنجاب کی جھلک نظر آئے گی۔
فلم کی کہانی اور کلائمیکس میں کچھ جھول ضرور تھے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک کمرشل فلم ہے جو دیکھنے والوں مکمل تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا تاثر دے رہی ہے جیسا کہ انڈین پنجابی فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔