کیا ایک سال بعد بھی معاشی مسائل کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت ہے؟
کیا ایک سال بعد بھی معاشی مسائل کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت ہے؟
جمعہ 9 جون 2023 19:35
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
اسحاق ڈار نے کہا کہ معاشی مشکلات اور پریشانیاں انہیں ورثے میں ملی ہیں۔ (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے موجودہ معاشی مسائل کا ذمہ دار ایک مرتبہ پھر سابق حکومت (پی ٹی آئی) کو ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی اور دیگر اقتصادی بحرانوں نے جنم لیا ہے۔
ایسے خیالات کا اظہار انہوں نے جمعے کو اپنی حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ معاشی مشکلات اور پریشانیاں انہیں ورثے میں ملی ہیں۔
ان کے اس بیان کے بعد یہ بحث جنم لے رہی ہے کہ کیا موجودہ حکومت اور اس کے وزیر خزانہ ایک سال سے زائد حکومت کرنے کے بعد بھی یہ تکنیکی جواز رکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں آنے والی مشکلات کی ذمہ داری ایک برس پہلے چلی جانے والی حکومت پر ڈال دیں؟ اور کیا ان کے لیے ایک برس کافی نہیں تھا کہ گزشتہ حکومت کی خامیوں اور خرابیوں کو اپنے اقدامات کے ذریعے درست کرتے۔
ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کا معاشی خرابی کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالنا اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں سبسڈی دی اور اس سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سبسڈی اس حکومت نے ایک لمبے عرصے تک ختم کیوں نہیں کی۔
’جس سبسڈی کی یہ حکومت بات کرتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جاتے جاتے دی تھی اور اس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو وہ سبسڈی تو سابقہ حکومت کے آخری چند ہفتوں میں دی گئی تھی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی سبسڈی اسی حکومت میں اگلے کئی ماہ تک جاری کیوں رہی اور انہوں نے اس کو ختم کیوں نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے یہ سبسڈی زیادہ دی۔‘
انہوں نے کہا کہ ان حالات کی دونوں جماعتیں برابر کی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ سال وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد پنجاب میں اقتدار کا کھیل کھیلا جس کی وجہ سے معاشی حالات بھی خراب ہوئے اور دوست ملکوں نے بھی امداد آئی ایم ایف کے قرضے سے مشروط کر دی۔
’پھر سیلاب کے بعد جنیوا میں جس امداد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی نہیں آئی اور مسائل بڑھ گئے۔‘
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے خیال میں تکنیکی طور پر سابق حکومت کو مکمل طور پر ان حالات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور اگر وہ کسی حد تک ذمہ دار بھی ہے تو موجودہ حکومت بالکل بھی بری الزمہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان حالات کے تمام فریق ذمہ دار ہیں، کوئی ایک نہیں اور کسی ایک کو اس کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘
سابق وفاقی وزیر خزانہ اور سینیئر معیشت دان ڈاکٹر اشفاق حسن خان سمجھتے ہیں کہ سابق حکومت درآمدات میں کمی نہیں لا سکی تھی لیکن آج ایک سال بعد یہ کہنا کہ تمام مسائل کی جڑ وہ لوگ تھے، تکنیکی طور پر بالکل بھی درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پچھلی حکومت کی کچھ چیزیں اچھی نہیں تھیں، کچھ اچھی تھیں اور کچھ بہت اچھی تھیں، لیکن یہ کہنا کہ آج کے مسائل کے وہ ذمہ دار ہیں معاشی نہیں سیاسی بات ہے۔‘
’یہ کہنا سیاست ہے کہ پچھلی حکومت اچھی نہیں تھی۔ بری سے بری حکومت پچھلوں کے بارے میں یہی کہتی ہے۔‘
تاہم سینئیر صحافی خرم حسین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کا مسائل کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دینا 80 فیصد تک درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہ کسی بھی ملک کی معیشت ایک سال کے دوران اتنے برے طریقے سے نہیں گرتی جتنی ہماری گری ہے۔
’مسائل کا آغاز 2021 میں اس وقت ہوا جب عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور اس کے بعد اپنی ٹیم بدل ڈالی۔ وہ اس وقت شوکت ترین کو لے کر آئے جنہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ صحیح نہیں ہے اور میں اس پر دوبارہ مذاکرات کر کے بہتر معاہدہ کروں گا لیکن وہ کر نہیں سکے۔‘