Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کو طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے؟ ماہرین کی رائے منقسم

امریکی ماہرین کے خیال میں واشنگٹن کو افغان خواتین کی مدد پر توجہ دینی چاہیے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی ماہرین کے خیال میں افغان طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنانے سے واشنگٹن کو دہشت گردی سے نمٹنے اور افغان خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں طالبان سے متعلق امریکی پالیسی پر ہونے والے مباحثے کے شرکا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے جبکہ دیگر ماہرین نے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے ملک کا قبضہ سنبھالنے کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور ملکوں کے درمیان بھی اس حوالے سے متضاد رائے پائی جاتی ہے۔
مباحثے میں شریک سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشیر لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک اور ان کی تعلیم پر پابندی کی بنیاد پر امریکی حکومت کو طالبان کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا طالبان کے دور میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے خواتین میں خودکشی کے کیسز بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے معاملات کو بنیاد بناتے ہوئے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنا ’غلطی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر طالبان، داعش سے وابستہ عسکریت پسندوں سے لڑ رہے ہیں تو اس وجہ سے امریکہ کو انہیں انسداد دہشت گردی میں اپنا شراکت دار نہیں سمجھنا چاہیے۔
’اس کے بجائے امریکہ کو افغانستان کی خواتین کی مدد کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘

بین الاقوامی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس موقع پر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ڈگلس لنڈن نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لیزا کرٹس کے موقف کو سمجھتے ہیں لیکن امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اپنے اہداف حاصل کرنے اور طالبان پر اثر انداز ہونے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
ڈگلس لنڈن نے اعتراف کیا کہ طالبان میں یکسانیت نہیں پائی جاتی اور نہ ہی انہیں ترقی پسند کہا جا سکتا ہے لیکن کچھ کے مفادات مختلف ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغانستان میں باضابطہ موجودگی ہونی چاہیے لیکن ساتھ ہی تسلیم کیا کہ فی الحال شاید یہ ممکن نہ ہو۔
ڈگلس لنڈن نے کہا کہ سی آئی اے اور امریکی حکومت کے دیگر اداروں کا طالبان کے ساتھ تعاون جاری ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ افغانستان کے اندر ہو رہا ہے یا پھر کسی تیسرے ملک میں۔
افغانستان میں سابق امریکی سفیر رونلڈ نیومن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی طالبان کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور نہ ہی واضح پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی کابل میں باضابطہ موجودگی سے واشنگٹن کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
سابق سفیر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کی مدد کرے بالخصوص معاشی تناظر میں۔
انہوں نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کے 50 کروڑ ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیسہ نجی بینکوں نے جمع کروایا تھا اور اس کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیئر: