Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہے: سہیل شاہین

سہیل شاہین نے کہا کہ ’ہماری توجہ اس وقت افغانستان کی تعمیر نو پر ہے۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)
افغان طالبان کے سینیئر رہنما اور دوحہ میں سیاسی آفس کے سربراہ سہیل شاہین نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں موجود ہے۔
عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے اس سوال پر کہ پاکستان کا الزام ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے، کے جواب میں کہا کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں ہے اور ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔‘
’وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیں، تو پاکستان کے اندر (ان کے خلاف کارروائی) یہ ان کی ذمہ داری ہے نہ کہ ہماری۔‘
اینکرپرسن کیٹی جینسن کے اس سوال پر کہ کیا آپ ڈیورنڈ لائن کو اپنے اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی بارڈر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں؟ سینیئر طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’اسے بارڈر نہیں ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ تو یہ کہنا ہی اس کی حیثیت بتانے کے لیے کافی ہے۔‘
انہوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارے سکیورٹی فورسز نہیں بلکہ ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں، اور ہماری پالیسی پُرامن طریقے سے رہنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنے کی ہے۔‘
’یہ ہماری پالیسی ہے اور اب یہ ان پر منحصر ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ ان کی پالیسی کیا ہے، اگر وہ بھی یہی چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ یہ خطے، ہمسایہ ممالک، افغانستان اور ہم سب کے لیے اچھا ہے۔‘

’جنگ نہیں چاہتے مگر اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں‘

ایران کے ساتھ رواں برس مئی میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے حوالے سے سہیل شاہین نے کہا کہ ہمارا ایران کے ساتھ 51 برس قبل ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس کے مطابق ایران کو 26 کیوبک میٹرز (پانی) ملنا تھا لیکن انہوں نے اس سے زیادہ حاصل کیا کیونکہ اس وقت افغانستان میں جنگی صورتحال تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور تکنیکی ٹیموں اور معاہدے کی بنیاد پر حل ہو سکتا ہے۔
’اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں۔ پانی کی سطح اب وہ نہیں رہی جو آج سے 50، 51 برس قبل تھی۔ نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ تو معاہدے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حساب سے وہ اپنے حصے کا پانی لے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک ایرانی وفد معاہدے کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمارے لوگوں سے بات کر رہا ہے۔‘
اُن سے پوچھا گیا کہ سرحد پر جو صورتحال بنی ہے، کیا وہ ایران کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ سہیل شاہین نے جواب دیا کہ ’ہم اپنے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں، ہم کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’کسی کی حق تلفی نہیں کر رہے، ہم کسی پر حملہ نہیں کر رہے۔ ہم اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
سینیئر طالبان رہنما نے کہا کہ ’ہماری توجہ اس وقت افغانستان کی تعمیر نو پر ہے اور اس کے لیے ہم اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ اور اگر کہیں کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ پُرامن حل چاہتے ہیں اور یہی ہمارے اور اُن کے لیے بہتر ہے۔‘
سہیل شاہین سے پوچھا گیا کہ اگر اُن کو ایران سے جنگ کرنا پڑی تو کیا اُن کے پاس فوج ہے؟ طالبان رہنما نے جواب دیا کہ ’ہم جنگ نہیں چاہتے مگر اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ گزشتہ 20 برس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔‘

’امریکہ سمیت تمام دنیا سے سرمایہ کاری کو خوش آمدید‘

اینکرپرسن کیٹی جینسن نے سوال کیا کہ دوحہ معاہدے میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے کیا یہ کمٹمنٹ ہے یا صرف مغرب کے لیے زبانی جمع خرچ؟ اس پر طالبان رہنما نے کہا کہ یہ کمٹمنٹ ہے اور اس پر کھڑے ہیں۔ ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ہماری سرکاری پالیسی ہے اور ہم دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں میل دور کسی ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر افغانستان میں دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپوں کے بارے میں لکھنے والے کیا ہمیں دکھا سکتے ہیں کہ یہ کمیپ کہاں ہیں؟
’یہ زمینی حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے ہماری حکومت کے خلاف بات کی جاتی ہے۔‘
سہیل شاہین نے کہا کہ اگر یہ بات کرتے ہیں تو ثابت کریں اور اپنے وفود افغانستان بھیجیں اور شواہد لائیں بصورت دیگر یہ اقوام متحدہ جیسے بڑے ادارے کی ساکھ پر بھی سوال ہے۔
’معاشی طور پر ہم دنیا کے تمام ملکوں سے معمول کے تعلقات چاہتے ہیں۔ چونکہ ہم ملک کی بحالی اور تعمیر نو چاہتے ہیں اس لیے سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہیں گے۔‘

سہیل شاہین نے کہا کہ ہم نے ایک فتوے کے ذریعے پوست کی کاشت پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

سوال پوچھا گیا کہ ایک وقت تھا کہ آپ امریکہ سے لڑ رہے تھے اور اب آپ امریکہ سے تعاون کر رہے ہیں تو اپنے جنگجوؤں کے سامنے کیسے اس کی توجیہہ کرتے ہیں؟
سہیل شاہین نے جواب دیا کہ دو مرحلے تھے، پہلے مرحلے میں اپنے ملک کو امریکی تسلط سے آزاد کرانا تھا تو اُس وقت لڑے۔ اب بحالی اور تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔
’اس مرحلے میں امریکہ سمیت تمام دنیا سے سرمایہ کاری اور تعاون کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘
پوست کی کاشت کے خاتمے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 برس میں مغربی ممالک اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی اس کا خاتمہ نہ کر سکے مگر ہم نے ایک فتوے کے ذریعے اس پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔

’ہمیں تسلیم نہ کیے جانا سیاسی معاملہ ہے‘

سہیل شاہین سے پوچھا گیا کہ افغانستان کی 97 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، عورتوں اور لڑکیوں پر پابندیاں ہیں، دہشت گردی کا خطرہ ہے اور بین الاقوامی امداد روک دی گئی تو افغانستان طالبان کی حکومت میں کیسے ترقی کرے گا؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں جس غربت کا سامنا ہے وہ ہمیں گذشتہ 20 برس برسراقتدار رہنے والی حکومت سے ورثے میں ملی ہے۔ غیرملکی فورسز افغانستان میں موجود تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کیے، لیکن وہ ڈالر کچھ وار لارڈز کی جیب میں چلے گئے۔ عام لوگ اسی وقت سے غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں۔
’دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے پابندیاں لگا دیں اور غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ تو زیادہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پابندیاں لگائیں اور وار لارڈز کی حمایت کی جو ان کے اتحادی تھے۔ وہ عام لوگوں کے لیے کام نہیں کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے غربت ہے لیکن ہم اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے پیسوں سے سڑکوں کی تعمیر جیسے بڑے پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔

افغان طالبان نے خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں ان سے کہا گیا کہ اقوام متحدہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی مسلمان ممالک ان کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں تو کیا وہ کم از کم افغانستان کے تمام دھڑوں کو حکومت میں شامل کریں گے؟
طالبان رہنما نے کہا کہ ’اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کا ہمیں تسلیم نہ کرنا زمینی حقائق کے برعکس ایک سیاسی معاملہ ہے۔ ہماری سرحدیں ہیں۔ ہمارا پورے ملک پر کنٹرول ہے۔ ہم اپنے لوگوں کا دفاع کر سکتے ہیں اور ہمیں ان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ گذشتہ 20 برسوں میں ثابت ہو چکا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اور خواتین کو کام کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو میں کہوں گا کہ ہم پر پابندیاں لگائی گئیں۔ جب یونیورسٹیاں اور سکینڈری سکول کھلے تھے اور خواتین کام کر رہی تھیں تو ہمیں تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ حتی کہ ابھی بھی ڈیڑھ لاکھ خواتین ڈاکٹرز اور نرسز صحت عامہ کی وزارت میں کام کر رہی ہیں اور کوئی اس کا ذکر نہیں کرتا۔ مزید کئی وزارتوں میں خواتین کام کر رہی ہیں جیسا کہ وزارت تعلیم میں ہزاروں خواتین ٹیچرز کام کر رہی ہیں۔ لیکن ہم پر یہ پابندیاں شروع سے لگا دی گئیں جو ابھی تک لگی ہوئی ہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں یہ سیاسی بنیادوں پر لگائی گئی ہیں۔
’شروع میں انہوں نے اس مسئلے کو بنیاد نہیں بنایا تھا، لیکن اب بنا رہے ہیں۔ وہ آغاز ہی سے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو غیر اہم بنا رہے تھے۔‘
اس سوال پر کہ لڑکیوں اور خواتین کو اب سکول اور یونیورسٹی میں کیوں نہیں بھیجا جا رہا؟ انہوں نے کہا کہ ’میڈیکل سکول کھلے ہیں اور دیگر سکولوں کی بات کی جائے تو اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو لڑکیوں کو اسلامی روایات کے مطابق سکول کا ماحول فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘

’شہزادہ ہیری کو شرم آنی چاہیے‘

سہیل شاہین نے برطانوی شہزادے ہیری کی اپنی خودنوشت میں اس دعوے کہ انہوں نے افغانستان میں 13-2012 کے دوران بطور کو ہیلی کاپٹر پائلٹ اور گنز کے 25 افغانیوں کو ہلاک کیا تھا اور انہیں اس حوالے سے نہ تو کوئی اطیمنان ہے اور نہ شرم، کے حوالے سے کہا کہ ’انہیں شرم آنی چاہیے۔‘
’یہ جمہوریت پسند ہونے کے دعوے دار ہیں، یہ انسانی حقوق کے علمبردار اور چیمپیئن بنتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معصوم لوگوں، معصوم گاؤں والوں کو قتل کیا۔ انہیں شرم کرنی چاہیے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔‘

شیئر: