Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اگلے ماہ مدت مکمل ہونے سے پہلے چلی جائے گی: وزیراعظم

وزیراعظم نے کہا کہ ’معیشت مستحکم ہو گی تو قرضہ نہیں لینا پڑے گا۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’ہماری حکومت اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کر لے گی اور مدت مکمل ہونے سے پہلے ہم جائیں گے اور نئی نگراں حکومت آئے گی۔‘
اتوار کو سیالکوٹ مکے گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ نگراں حکومت کے بعد جو نئی منتخب حکومت آئے گی، امید ہے وہ بھی تعلیم کے فروغ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
قبل ازیں بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ اور قومی نصاب میں اصلاحات کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’انتخابات اکتوبر، نومبر میں جب بھی ہوں گے الیکشن کمیشن اس کی تاریخ دے گا۔‘
پاکستان میں جب بھی حکومت کی آئینی مدت اپنے اختتام کے قریب پہنچتی ہے تو سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ آیا یہ حکومت وقت پر تحلیل ہو جائے گی یا نہیں اور یہ کہ عام انتخابات تاخیر کا شکار تو نہیں ہو جائیں گے۔
حالیہ ایک برس کے دوران پیدا ہونے والے سیاسی حالات کے تناظر میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت پیپلز ڈیمویٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لیے بروقت الیکشن ہی قابلِ عمل اور نسبتاً محفوظ راستہ ہے۔
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرنے پر اتحادی حکومت کے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر حکومت چھوڑ دینے کے ایک سے زائد بیانات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے حکومت چاہتی ہے کہ نو مئی کے زخم الیکشن تک تازہ رہیں اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو معاملہ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔‘
’دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ان کے معاملات ٹھیک سے چلتے رہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کی اںڈرسٹینگ اب کچھ بہتر ہوئی ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’شہباز شریف کے پیشِ نظر آئی ایم ایف کی دوسری قسط بھی ہےجو نومبر میں آنی متوقع ہے۔‘

مظہر عباس نے کہا کہ ’ایک اہم بات یہ کہ اسٹیبشلمنٹ بھی اس وقت شہباز شریف یا پی ڈی ایم کو ہی بہتر سمجھ رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’ایک اہم بات یہ کہ اسٹیبشلمنٹ بھی اس وقت شہباز شریف یا پی ڈی ایم کو ہی بہتر سمجھ رہی ہے۔ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فی الحال ان کی گُڈ بکس میں میں نہیں رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب پی ڈی ایم کے سامنے اتنا سخت چیلنجر (عمران خان) ہو تو وہ انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی جانب نہیں جائے گی۔‘
کیا آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تناؤ پیدا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ بہت زیادہ تناؤ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کا بڑا سٹیک صوبہ سندھ میں ہےاور مسلم لیگ ن کا پنجاب میں ہے۔ دونوں اپنے اپنے گراؤنڈز پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب اور مسلم لیگ ن وسطی پنجاب میں اپنی پوزیشن بہتر دیکھنا چاہتی ہے۔‘
واضح رہے کہ اگر عام انتخابات اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر ہوں تو آئینِ پاکستان کے مطابق وہ 60 دن میں کرانا لازم ہیں۔ اس کے برعکس اگر قومی اسمبلی مقررہ آئینی مدت سے قبل تحلیل کر دی جائے تو 90 دن میں الیکشن کرانا ہوتے ہیں۔
اس قانون کو مظہر عباس عجیب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر مقررہ مدت سے ایک دن قبل قومی اسمبلی توڑ کر حکومت ختم کر دی جائے تو 90 دن اور اس کے اگر ایک دن بعد یعنی مقررہ وقت پر حکومت کی مدت ختم ہو تو 60 دن میں الیکشن کی بات میں کچھ ابہام سا ہے۔ اسے بھی دور ہونا چاہیے۔

شیئر: