سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، حکومت کی فُل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد
سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، حکومت کی فُل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد
منگل 18 جولائی 2023 11:05
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ججز دستیاب نہیں لہٰذا فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر وفاقی حکومت کی فُل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
منگل کو کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے بھی اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’اس بات کی خوشی ہے کہ زیرِ حراست افراد کو خاندان سے ملنے دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ججز دستیاب نہیں فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’آپ 26 جون کا حکم نامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خود بینچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا۔ کیا اب حکومت فل کورٹ کا کہہ سکتی ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت ججز دستیاب نہیں فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔‘
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’1999 کے فیصلے میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ آرٹیکل 83 اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔‘
وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ ’بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ملزمان کا براہِ راست فوج سے تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟‘
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ’نو مئی کے واقعات میں کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا اور کچھ پر نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کا تعلق ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟‘
جس پر وکیل عابد زبیری نے حوالہ دیا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’فوج سے اندرونی تعلق ہو گا تو کیا پھر بھی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے؟ اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟‘
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ ’نو مئی کے واقعات میں کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا اور کچھ پر نہیں۔ اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی۔ موجودہ حالات میں ٹرائل کے لیے خاص ترمیم کرنا ہو گی۔‘
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی ہے۔