Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کے قتل کو دو برس، ’محض سزا کا فیصلہ خواتین کے تحفظ کا ضامن نہیں‘ 

ظاہر جعفر نے نور مقدم کو اسلام آباد کے ایک گھر میں قتل کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
آج سے دو برس قبل پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک 27 سالہ خاتون کے قتل کی خبر نے میڈیا پر تہلکہ مچا دیا تھا۔ 
اس کے بعد کافی عرصے تک قتل کی واردات سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنی رہی اور پاکستان کے چند بڑے شہروں میں اس ہولناک واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ 
یہ خاتون پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم تھیں۔ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک گھر میں ظاہر جعفر نامی شخص نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ 
اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے جنہوں نے قتل کی اس واردات کا نوٹس لیا تھا۔ 
اس کے بعد ظاہر جعفر اور ان کے گھر کے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور بعد میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم بھی گرفتار ہوئیں۔ 
یہ مقدمہ اسلام آباد کی مقامی عدالت میں لگ بھگ آٹھ ماہ تک چلتا رہا۔ کیس کی سماعتوں میں جب مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو لایا جاتا تو میڈیا کے کیمروں کا فوکس انہی کی طرف ہوتا تھا۔ ظاہر جعفر کبھی پولیس اہلکاروں کے سہارے گھسٹتے ہوئے کچری میں داخل ہوتے دکھائی دیتے تو کبھی انہیں سٹریچر پر لیٹا کر عدالت میں لایا جاتا۔ 
اس دوران ظاہر جعفر کے ذہنی توازن کے درست نہ  ہونے کے دعوے بھی ذرائع ابلاغ تک پہنچے لیکن ان دعوؤں کو عدالت نے تسلیم کیا اور نہ ہی ان کی بنیاد پر ملزم کو کوئی ریلیف مل سکا۔ 
قاتل کو سنائی گئی سزائیں اور ان کے خلاف اپیلیں 
بالآخر 24 فروری 2022 کو عدالت نے ظاہر جعفر کو قتل کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی۔ اس کے علاوہ ریپ کا الزام ثابت ہونے پر 25 سال قید بامشقت، اغواء کے جرم میں 10 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔ 
ظاہر جعفر نے اسلام آباد کی مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 

24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس اپیل کی سماعتیں بھی وقفوں وقفوں سے جاری رہیں اور لگ بھگ 11 ماہ بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کر دی اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سزا میں اضافہ کرتے ہوئے ریپ کے جرم میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی 25 برس قید کی سزا کو سزائے موت میں بدل دیا تھا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ظاہر جعفر نے 16 اپریل 2023 کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور اب یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ 
ظاہر جعفر کے وکیل نے سپریم کورٹ میں اپنی اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا۔ 
انہوں نے موقف اپنایا کہ غلطیوں سے بھرپور ایف آئی آر کی بنیاد پر سزا سنانا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ 
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک سپریم کورٹ میں ظاہر جعفر کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی ہے۔ 
وفاقی دارالحکومت میں خواتین سے زیادتی کے واقعات 
نور مقدم کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے بعد سول سوسائٹی اور حکومت کے محکمے غیرمعمولی طور پر متحرک نظر آئے لیکن وفاقی دارالحکومت میں اس کے بعد بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے۔ 

نور مقدم کے قتل کے بعد بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ فوٹو: اے ایف پی

رواں برس 21 فروری کو بھی اسلام آباد کے شالیمار پولیس سٹیشن میں ایک ایسی ایف آئی آر درج ہوئی تھی جس میں ایک لڑکی کو ملازمت کے بہانے بلا کر دو افراد کی جانب سے ریپ کیے جانے کا واقعہ درج ہوا تھا۔ 
جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اس وقت اسلام آباد کے ایک سکول کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی خبر سامنے آ رہی ہے۔  
مقامی میڈیا کے مطابق پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس واقعے میں ملوث چار میں سے تین ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ 
اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن کی حدود میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ دو افراد کی جنسی زیادتی کا واقعہ بھی بدھ (19 مئی 2023) کو رپورٹ ہوا ہے۔ اس واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج ہوا ہے۔ 
ایف نائن پارک زیادتی کیس 
قبل ازیں فروری 2023 میں ایف نائن پارک میں پنجاب کے علاقے میاں چنوں سے آئی ہوئی ایک لڑکی کو دو نامعلوم افراد کی جانب سے اسلحے کے زور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی خبر سامنے آئی۔  اس واقعے کے ملزمان گرفتار تو نہیں ہوئے تاہم 16 فروری کو اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 کے ایک ناکے پر چیکنگ کے دوران دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ شروع کر دی تھی اور وہ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ 
اسلام آباد پولیس نے اس سے قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ دونوں ملزمان ایف نائن میں خاتون سے جنسی زیادتی میں ملوث تھے اور خاتون نے ان کی شناخت بھی کی تھی۔ 
انسانی حقوق بالخصوص پاکستان میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کا خیال ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ 
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے نور مقدم کے قتل کے واقعے اور اس کے بعد کے عدالتی فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نچلی عدالتوں سے مجرم کے خلاف فیصلے آنا خوش آئند ہے لیکن یہ فیصلے مؤثر مثال اس وقت بنیں گے جب مجرم کو باقاعدہ سزا دی جائے۔‘ 

ظاہر جعفر نے 16 اپریل 2023 کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ فوٹو: اے ایف پی

’نور مقدم کے خاندان کے افراد ابھی تک کھڑے ہیں‘ 
فرزانہ باری نے کہا کہ ’پہلے ظاہر جعفر کو مقامی عدالت نے سزا سنائی۔ پھر اچھا ہوا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا لیکن مجرم اب سپریم کورٹ میں اپیل لے کر چلا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ بھی اس سزا کو برقرار رکھے گی تو مجرم کے پاس صدر سے معافی کی اپیل کی آپشن رہے گی۔‘ 
’اب اس کیس میں اتنی طوالت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ایسے مقدمات جن میں سب کچھ واضح ہے، ان کے فیصلے اور سزا کے لیے کوئی ٹائم فریم ہونا چاہیے۔‘ 
فرزانہ باری پاکستان میں خواتین کے تحفظ سے متعلق بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس کیس میں مجرم کو سزا ملتی ہے تو لوگوں میں یہاں کے عدالتی نظام پر اعتماد بڑھے گا کہ ایک امیر آدمی کو بھی اس کے جرم کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘ 
اس مقدمے میں قاتل اور مقتول کے خاندانوں میں مفاہمت یا صلح نہ ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں نور مقدم کے خاندان کے افراد ابھی تک کھڑے ہیں۔ وہ اصولی لوگ ہیں۔ انہوں نے خود سول سوسائٹی کو بھی آن بورڈ رکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کیس ابھی تک کہیں نہ کہیں زیربحث ہے۔‘
’دوسری جانب آپ نے شاہ زیب قتل کیس میں دیکھا ہو گا کہ طویل عدالتی مراحل کے بعد بالآخر مقتول کے خاندان نے صلح کر لی اور بیرون ملک منتقل ہو گئے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجرم کو سزا نہیں دی جاتی تو لواحقین تھک جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ پرکشش آفرز کے عوض صلح کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘ 
‘پولیس کے محکمے میں پدرشاہانہ مائنڈ سیٹ‘
’خواتین کے ساتھ ریپ کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ سماجی طور پر ان محرکات کا پتا لگانے اور ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے جو اس جرم میں دن بدن اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے۔‘ 
فرزانہ باری پولیس خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات کی تفتیش کے حوالے سے پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ’ایسے کیسز میں پولیس کا کردار کافی منفی رہا ہے۔ پہلی چیز تو کرپشن ہے۔ ظلم کرنے والا پیسے کے زور پر ایف آئی آر درج نہیں ہونے دیتا اور دوسری چیز پولیس کی جانب سے کمزور انویسٹی گیشن ہے۔ پولیس عدالت کے سامنے ٹھوس ثبوت نہیں لاتی جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے۔‘ 

سپریم کورٹ میں ظاہر جعفر کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

’ایک معاملہ پولیس کے محکمے میں پدرشاہانہ مائنڈ سیٹ بھی ہے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی خاتون کسی مرد کی جانب سے زیادتی کی شکایت لے کر وہاں جاتی ہے تو اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ خود مجرم ہے۔ سوچ کا یہ انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔‘ 
لاہور ہائی کورٹ بار کی نائب صدر ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نور مقدم کا کیس کافی زیادہ ہائی لائٹ ہوا، یہی وجہ ہے کہ یہ عدالتوں میں چلتا رہا اور اس کا فیصلہ بھی نسبتاً جلدی ہوا۔‘ 
’پولیس کا رویہ عورت دشمنی پر مبنی ہے‘ 
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ہمارے عدالتی نظام میں بہت ساری پیچیدگیاں اور مسائل ہیں۔ یہاں کمزور طبقات بالخصوص خواتین کو انصاف آسانی سے نہیں ملتا۔ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں سب سے بڑا مسئلہ ثبوت لانا ہوتا ہے۔ ان کے لیے گواہ پیش کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘ 
’دوسری چیز یہ ہےکہ ہمارے ہاں کی پولیس کا رویہ عورت دشمنی پر مبنی ہے۔ پولیس کی تفتیش کے نظام میں بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عدالتوں میں خواتین کے ایسے مقدمات کے بارے میں کچھ نہ کچھ حساسیت پائی جاتی لیکن پولیس کو فریادی خواتین کے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے، وہ دوسرے وکٹم افراد سے ساتھ سلوک سے مختلف ہوتا ہے۔‘ 
’خواتین کے خلاف جرائم کے میں سزاؤں کی شرح بہت کم‘ 
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے متاثرہ خواتین کے حوالے سے بتایا کہ ’ہر خاتون کا خاندانی اور سماجی پس منظر بہت مضبوط نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اپنا مقدمہ لڑنے کے قابل نہیں ہوتی اور دوسرا مسئلہ تعلیم کی کمی کا بھی ہے۔ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوں تو وہ اپنے حقوق سے آگاہی کے بعد بہتر انداز میں اپنی حفاظت کر سکتی ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے میں سزاؤں کی شرح بہت کم ہے۔‘ 

نور مقدم کے والد نے بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

نور مقدم کیس میں دونوں خاندانوں کے درمیان کوئی سمجھوتا نہ ہونے کی وجوہات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ نور مقدم کا خاندان اخلاقی طور پر مضبوط ہو اور اس نے کمپرومائز نہ کیا ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں خاندان مضبوط تھے، اس لیے متاثرہ خاندان کو دباؤ میں لانا آسان نہ ہوا ہو۔‘ 
’اگر بالفرض اس کیس میں فریقین کے درمیان کوئی سمجھوتا ہو بھی جاتا تو بھی اس قتل کے شواہد اس قدر واضح ہیں کہ سزا سے مجرم کا بچنا آسان نہیں۔‘ 
پاکستان میں خواتین کے لیے محفوظ ماحول سے متعلق حکومت کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہاں خواتین سے متعلق مائنڈسیٹ بدلنے اور انہیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ 
’بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست خواتین دشمن اور عوام دشمن رویے کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ ریاست کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔‘ 

شیئر: