Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوراک کے بحران سے سب سے زیادہ مسلم ممالک متاثر: ماہرین

یوکرین میں جنگ کی وجہ سے گندم کی قیمتوں میں اضافہ رپورٹ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ اور موسم گرما میں شدید درجہ حرارت نے عالمی غذائی تحفظ پر دباؤ بڑھا دیا ہے جس کے براہ راست تباہ کن اثرات غریب عرب، افریقی اور مسلم ممالک کے شہریوں پر پڑ رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی ثالثی کے تحت بلیک سی گرین انیشیٹیو کے خاتمے کی وجہ سے عالمی خوراک کی منڈیوں میں نہ صرف اناج کی کمی ہے بلکہ قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بلیک سی گرین انیشیٹیو کے معاہدے کے تحت ناکہ بندی کے باوجود روس نے یوکرین سے فصلوں اور کھاد کی برآمد کو جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔
خشک سالی سمیت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے ایشیا اور افریقہ میں خوراک کی پیداوار کو خاص طور پر متاثر کیا ہے جس سے مسائل میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔
خوراک کے اس بحران نے غریب ممالک میں بچوں کی نشوونما پر اثر ڈالا ہے۔
عرب دنیا میں اس کے اثرات کمزور معیشتوں اور کرنسیوں والے ممالک میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ ان میں مصر، لبنان، تیونس اور اردن شامل ہیں۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے گلوبل کراپ ڈائیورسٹی ٹرسٹ کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور فوڈ سکیورٹی کے عالمی شہریت یافتہ ماہر کیری فاؤلر نے کہا کہ دنیا بھر میں اس وقت 80 کروڑ سے زیادہ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ موسم گرما سب سے گرم ترین ہے جس نے دنیا بھر میں زراعت اور فصلوں پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں۔

امریکی سفیر جیمز کے مطابق یوکرین کے زرعی انفراسٹرکچر کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کیری فاؤلر کے مطابق ایشیائی ممالک گرمی سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور وہاں چاول کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
یوکرین کے بارے میں کیری فاؤلر نے کہا کہ کیئف نے دنیا کو گندم، جو، مکئی اور سورج مکھی کا تیل فراہم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین 15 ایسے ترقی پذیر ممالک کو اناج فراہم کر رہا تھا جہاں پر بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ میں سینکشن کوآرڈینیشن کے دفتر کے سربراہ سفیر جمیز اوبرائن نے کہا ہے کہ یوکرین نے فروری 2022 میں جنگ شروع ہونے سے قبل دنیا کا 10 فیصد اناج فراہم کیا تھا۔
انہوں نے تنازع کے لیے ماسکو کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یوکرین کے زرعی انفراسٹرکچر کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماسکو اس سے مغرب پر دباؤ ڈالنا چاہتا تھا تاکہ مغربی ممالک کے ساتھ بات چیت میں بہتر پوزیشن میں ہو۔

شیئر: