افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد یہ پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ ہے۔
ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ 20 سال تک طالبان نے نیٹو افواج اور مقامی افغان اتحادیوں کے خلاف جنگ کی۔
مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کو یقینی بنانا ہو گا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ روابط منقطع کر دیے ہیں۔
روس نے باضابطہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا تاہم ماسکو نے اس تحریک کے رہنماؤں کی میزبانی کی ہے جبکہ کابل میں روس کا سفارت خانہ بھی کام کر رہا ہے۔
نورالدین عزیزی نے بتایا کہ ’اس معاہدے کے تحت روس دس لاکھ ٹن پیٹرول، دس لاکھ ٹن ڈیزل، پانچ لاکھ ٹن ایل پی جی اور 20 لاکھ ٹن گندم سالانہ سپلائی کرے گا۔‘
معاہدے کے حوالے سے روس کے توانائی اور زراعت کے وزرا نے فوری اس پر تبصرہ نہیں کیا۔
روس کے نائب وزیراعظم الیگزینڈر نوک جو تیل اور گیس کے محکمے کے سربراہ ہیں، کے دفتر کی جانب سے بھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
نورالدین عزیزی کا مزید کہنا تھا کہ معاہدہ تجرباتی بنیاد پر غیرمعینہ مدت کے لیے کام کرے گا۔ اگر دونوں ممالک معاہدے کے معلامات اور انتظامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں تو پھر طویل المدتی معاہدے پر دستخط ہوں گے۔
انہوں نے قیمتوں اور اس کے طریقہ کار سے متعلق تفصیل بتانے سے احتراز کرتے ہوئے فقط اتنا بتایا کہ روس نے اشیائے خورونوش کے حوالے سے رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے۔
افغانستان کو پیٹرول، ڈیزل، گیس اور گندم سڑکوں اور ریل کے ذریعے فراہم ہوگا۔
ماسکو میں ایک افغان ٹیکنیکل ٹیم کی جانب سے کئی ہفتے گزارنے کے بعد معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ گزشتہ ماہ صنعت و تجارت کے وزیر حاجی نورالدین عزیزی نے روس کا دورہ کیا تھا۔
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔
اس تجارتی معاہدے پر امریکہ قریب سے نظر رکھے گا کیونکہ اس کے عہدیدار ملک کے بینکنگ نظام کے حوالے سے باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں۔
حاجی نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر افغان شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔‘