Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی کی تحلیل، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ملاقات ہو گی

وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ’نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اجتماعی مشاورت سے ہوگا‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)
پاکستان کی قومی اسمبلی آج اپنی مدت مکمل ہونے سے تین دن قبل تحلیل کر دی جائے گی جبکہ نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ملاقات بھی شیڈول ہے جس میں مختلف ناموں پر غور کیا جائے گا۔  
ملکی تاریخ کی پندرھویں قومی اسمبلی کی مدت 12 اور 13 اگست کی رات بارہ بجے کو مکمل ہو گی تاہم نئے انتخابات 60 کے بجائے 90 دن میں کرانے کے لیے اسمبلی کو مدمت مکمل ہونے سےتین دن پہلے تحلیل کیا جا رہا ہے۔  
پاکستان کے آئین کے مطابق اگر قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوتی ہے تو انتخابات دو ماہ کے اندر کرانا لازمی ہیں جبکہ اسمبلی اپنی مدت سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو انتخابات کے لیے تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔  
موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018 کو حلف اٹھایا تھا جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ 2018 سے 2022 تک قائدِ ایوان عمران خان اور قائد حزب اختلاف رہے تاہم اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انھیں اس عہدے الگ کر دیا گیا اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔  
تحریک انصاف کے استعفوں کے باعث پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجا ریاض نئے قائد حزب اختلاف بنے۔  
قومی اسمبلی کے آج کے الوداعی اجلاس کے بعد ارکان کا اجتماعی گروپ فوٹو ہو گا۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ 1999 تک ملک میں قومی اسمبلی کبھی بھی اپنی مدّت مکمل نہیں کر سکی تھی۔
کبھی مارشل لاء اور کبھی 58 ٹو بی کے اختیار کے ذریعے صدر نے اسمبلی کو توڑ دیا۔ 2002 سے 2018 تک تین قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی تاہم اس دوران وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے۔

قانون کے مطابق اسمبلی اپنی مدت سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو انتخابات کے لیے تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

موجودہ قومی اسمبلی اگرچہ اپنی مدت مکمل کرسکتی ہے لیکن حکمراں اتحاد نے ایک نئی روایات ڈالتے ہوئے انتخابات کے لیے زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے اسے قبل از وقت تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی آئینی تقاضے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان ملاقات بھی طے ہے جس میں نگراں وزیراعظم کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا جائے گا اور اتفاق رائے کی صورت میں نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔  
اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ’نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اجتماعی مشاورت سے ہوگا۔ مشاورت کے بعد جو نام سامنے آئے گا اس پر لیڈر آف اپوزیشن سے بات کروں گا۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے ابھی تک کوئی نام شارٹ لسٹ نہیں ہوا۔ نوازشریف سے اس معاملے پر مشاورت ہو رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ نگران وزیراعظم ایسا ہو جو قابل قبول ہو۔‘
دوسری جانب راجا ریاض کا کہنا ہے کہ ابھی تک وزیراعظم شہبازشریف سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے، ساتھیوں کے مشورے سے تین نام فائنل کر لیے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ’نگران وزیراعظم کی تقرری پر آج وزیر اعظم سے مشاورت ہوگی جس میں اپنے نام پیش کریں گے۔‘
نئے وزیراعظم کی حلف برداری تک شہباز شریف وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔ آئین کے مطابق اگر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہیں ہوتا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا جہاں حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی ہو گی۔
کمیٹی بھی اگر کسی نام پر متفق نہیں ہوتی تو وہ دو یا تین نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دے گی جو ان ناموںمیں سے کسی ایک کو وزیراعظم مقرر کر دے گا۔

نئے وزیراعظم کی حلف برداری تک شہباز شریف وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

’انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اپوزیشن متحرک ہو جائے گی‘

عالمی مالیاتی فنڈ کے نئے بیل آؤٹ پیکج کے باوجود ملک اس وقت معاشی بحران سے بھی نبردآزما ہے۔ غیرملکی قرضوں میں کمی، بڑھتی مہنگائی اور خام مال خریدنے کے لیے ڈالر کی کمی جیسے مسائل چیلنج بن گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی تھنک ٹینک کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ’معاشی فیصلے ہمیشہ سخت اور اکثر غیر مقبول ہوتے ہیں جس کے لیے حکومت کو ان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کرنے کے لیے طویل مدت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ انتخابات اہمیت اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت ہو گی جسے معاشی بحالی کے لیے ضروری فیصلے کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔‘
ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اے ایف پی کو بتایا کہ کسی بھی قسم کی تاخیر اہم اتحادیوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ جاننے کے لیے وقت دے سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’انتخابات میں تاخیر عوام میں غصے کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور اپوزیشن کو متحرک کر سکتی ہے جسے پہلے ہی مہینوں کے کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔‘

شیئر: