انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں آن لائن اخبار ’کشمیر والا‘ کا دفتر خالی
پورٹل کے ایڈیٹر فہد شاہ پر گذشتہ سال انڈین حکام نے ’دہشت گردی کی تقدیس‘ اور جعلی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ایک نیوز پورٹل (ڈیجیٹل اخبار) کو بند کرنے اور آفس خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
سرینگر کے آن لائن اخبار کو اس وقت بند کرایا گیا جب دو دن پہلے اس کے ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کیا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ’کشمیر والا‘ نامی نیوز پورٹل کی بندش کشمیر کے متنازع خطے میں پریس پر بڑے کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔
2019 کو جب انڈیا نے کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرکے اسے مرکز کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا تب سے صحافیوں کو پولیس مستقل طور پر بلاتی ہے اور ان سے ان کے کام کے بارے میں پوچھ گچھ کرتی ہے۔
’کمشیر والا‘ کے ایک سٹاف ممبر نے بی بی سی کو بتایا کہ آفس میں ہم چھ لوگ بیٹھتے تھے اور آج ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور آفس خالی کر دیا۔
انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیراعظم نریندر مودی پر ناقدین اپوزیشن اور تنقیدی آوازوں اور میڈیا کا گلا دبانے کا الزام لگاتے ہیں۔
اخبار کا اتوار کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’جب ہم سنیچر کو اٹھے تو یہ دیکھ کر ایک اور دھچکا لگا کہ ہماری ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ تک رسائی بند کر دی گئی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے ویب سائیٹ تک رسائی روکنے کو حکومتی حکم کا نتیجہ قرار دیا جب کہ آفس کے مالک کی جانب سے آفس خالی کرنے کا نوٹس بھی مل گیا۔
’اس طرح کی سنسرشپ انتھائی شرمناک ہے اور ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا ہے۔‘
پورٹل کے ایڈیٹر فہد شاہ پر گذشتہ سال انڈین حکام نے ’دہشت گردی کی تقدیس‘ اور جعلی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا تھا اور ان کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
انڈیا اور پاکستان کا کشمیر کے حصوں پر کنٹرول ہے تاہم دونوں ممالک کا پورے کشمیر پر دعویٰ ہے۔
انڈیا کے زیرانتظام کمشیر میں پانچ لاکھ سے زائد فوجی خطے کی آزادی کے لیے لڑنے شدت پسند گروپوں کے خلاف لڑنے کے لیے تعینات ہیں۔
اس شورش کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے جن میں غالب اکثریت سویلین کی ہے۔