Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم ڈوب رہے ہیں‘، سطح سمندر بلند ہونے پر کیریبین جزائر خطرے سے دوچار

کارتی سگتوپو جزیرے کی آبادی 2 ہزار سے کم افراد پر مشتمل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بحیرہ کیریبین کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر رہنے والے سینکڑوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اس کی وجہ سطح سمندر کا بلند ہونا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پانامہ کے شمال میں واقع کارتی سگتوپو نامی گنجان آباد جزیرہ ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہے۔
اس جزیرے کی مقامی کمیونٹی 2 ہزار سے کم افراد پر مشتمل ہے جو پینے کے پانی اور سینیٹیشن جیسی سہولیات کے بغیر ہی گزر بسر کرتی ہے۔
ان کی زندگی کا دار و مدار ماہی گیری، چند فصلوں، روایتی صنعتی مصنوعات اور کسی حد تک سیاحت پر رہتا ہے۔
اس جزیرے پر گزر بسر آسان نہیں بالخصوص جب گرمی عروج پر ہو اور سہولیات بھی میسر نہ ہوں۔
کارتی سگتوپو جزیرے کا سائز پانچ فٹبال گراؤنڈز کے برابر ہے لیکن گنجان آباد ہونے کے باعث مکینوں کو کئی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سطح سمندر بلند ہونے سے مزید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں صدی کے آخر تک کارتی سگتوپو سمیت درجنوں کی تعداد میں قریبی جزیرے ڈوب جائیں گے۔ ان میں سے 49 جزیرے آباد ہیں جبکہ باقی سطح سمندر سے چند فٹ ہی بلند ہیں۔
کارتی سگتوپو جزیرے کی 73 سالہ خاتون مگدالینا مارٹینز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لہریں اب اونچی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ڈوبنے لگے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ ایسا ہوگا۔‘

بحیرہ کیریبین کے درجنوں جزیرے ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

مگدالینا مارٹینز ان سینکڑوں رہائشیوں میں شامل ہیں جو پانامہ کے مرکزی علاقوں کو نقل مکانی کرنے کو تیار ہیں جہاں حکومت کی مدد سے انہیں آباد کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ انہیں اپنی روایات اور ثقافت بھی کھونے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
تاہم مگدالینا کا کہنا ہے کہ اس سے ان کا ’لائف سٹائل‘ یعنی گزر بسر کا طریقہ بھی تبدیل ہو جائے گا لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا ’اس سے ہماری فطرت اور عادات تو نہیں تبدیل ہوں گی۔‘
پانامہ میں قائم ایک ٹروپکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان سٹیون پیٹن کا کہنا ہے کہ سطح سمند بلند ہونے کی وجہ سے تمام جزیرے ویران ہو جائیں گے۔
کارتی سگتوپو جزیرے پر پینے کا پانی میسر نہ ہونے کے باعث کشتیوں میں سفر کر کے کسی مرکزی علاقے سے خرید کر لانا پڑتا ہے۔
بجلی کی سہولت بھی چند خاندانوں کو ہی میسر ہے۔ اکثر گھروں کو پبلک جنریٹر کے ذریعے چند گھنٹوں کے لیے بجلی فراہم کی جاتی ہے جبکہ چند دیگر گھر سولر پینلز کا استعمال کرتے ہیں۔
جبکہ کسی گھر میں بھی ذاتی ٹوائلٹ موجود نہیں۔ اس مقصد کے لیے سمندر کے قریب ایک جگہ مختص کی گئی ہے جسے یہاں رہنے والا ہر شخص استعمال کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سیلابوں اور طوفانوں سے جزیرے پر رہنے والے افراد کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے جس سے رہائش، پانی، صحت اور تعلیم کی سہوت متاثر ہوئی ہے۔

شیئر: