Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپانی وزیراعظم جنہوں نے ’عدالت کا سامنا نہ کرنے‘ کے لیے خودکشی کی

فومیمارو کونیو نے اپنے سیاسی سفر میں متعدد وزارتوں میں کام کیا۔ (فوٹو: العربیہ)
یہ 7 دسمبر 1941 کی ایک سرد صبح تھی جب جاپانی فضائیہ نے بحرالکاہل کے جزائر ہوائی میں قائم ایک امریکی فوجی اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیا جس میں دو ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے جب کہ امریکی فوج کو بھاری مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
العربیہ کے مطابق اس حملے کا جواب دینے کے لیے امریکہ نے فوری طور پر جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے دیگر ملک بھی اس جنگ کا حصہ بن گئے اور یوں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔
پرل ہاربر پر حملے سے چند ہفتے قبل دو ایسے واقعات پیش آئے جن کے باعث جاپان میں حالات حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گئے۔ جیسے کہ اس وقت جاپانی وزیراعظم فومیمارو کونیو نے اپنے منصب سے مستعفی ہوتے ہوئے اپنا عہدہ جنرل ہیداکی ٹوگے کے سپرد کر دیا۔

جاپانی وزیراعظم فومیمارو کونیو

فومیمارو کونیو 12 اکتوبر 1891 کو ٹوکیو کے کونیو خاندان میں پیدا ہوئے۔ گذشتہ صدی کی 30ویں اور 40 ویں دہائی میں اس خاندان کا شمار جاپان کے اہم ترین سیاسی خاندانوں میں ہوتا تھا۔
انہوں نے کیوٹو امپیریل یونیورسٹی سے معاشرتی علوم کی تعلیم حاصل کی اور نمایاں پوزیشن میں گریجویشن کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد فومیمارو کونیو نے عارضی طور پر وزارت داخلہ میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ہی جرمنی کی شکست اور نوآبادیاتی پالیسی پر متعدد مضامین بھی تحریر کیے۔
فومیمارو کونیو نے اپنے سیاسی سفر میں متعدد وزارتوں میں کام کیا۔ 1937 میں انہیں جاپانی پارلیمنٹ کا سپیکر منتخب کیا گیا بعدازاں وہ وزیراعظم بنے جس کا دورانیہ 17 ماہ تھا۔ یہ بطور وزیراعظم ان کا پہلا دور تھا۔ جولائی 1940 میں فومیمارو کونیو کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ 14 ماہ تک اس عہدے پر فائر رہے۔ 

فومیمارو کونیو وزرا اور اعلٰی عسکری عہدیداروں کے ہمراہ۔ (فوٹو: العربیہ)

وزیراعظم فومیمارو کونیو نے بطور وزیراعظم اپنے پہلے دور میں جاپانی حکومت کی جانب سے چین کی جنگی کوششوں کی حمایت کے لیے نیشنل موبلائزیشن قانون پاس کیا تھا اور ہتھیاروں کی تیاری میں معاونت کے لیے لامحدود بجٹ مختص کرنے کی قرارداد بھی منظور کی تھی جس کا مقصد چینی علاقے میں گھسنے والی جاپانی افواج کے لیے کافی مقدار میں ہتھیار مہیا کرنا تھا۔

 عالمی عدالت اور خودکشی

اپنے دور حکومت میں فومیمارو کونیو نے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کی سخت مخالفت کی جب کہ اس کے برعکس جاپانی نیول کمانڈروں کے اصرار اور شہنشاہ ہیروہیٹو کے اعتماد سے محروم ہونے پر اکتوبر سنہ 1941 میں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

وزیراعظم فومیمارو کونیو نے اپنے منصب سے مستعفی ہوتے ہوئے اپنا عہدہ جنرل ہیداکی ٹوگے کے سپرد کر دیا۔ (فوٹو: العربیہ)

بعدازاں فومیمارو کونیو نے سنہ 1944 میں وزیراعظم ہیڈیکی توجو کو ان کے عہدے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا اور شہنشاہ ہیروہیٹو پر جاپان کو دوسری عالمی جنگ سے الگ رکھنے پر زور دیا۔
ستمبر سنہ 1945 کے آغاز میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد فومیمارو کونیو سے کہا گیا کہ ’وہ جاپان میں امریکی فوج کے اعلی عہدیدار ڈگلس مک آرتھر کے ساتھ تعاون کریں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ جاپان کے شہنشاہ پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
امریکیوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر فومیمارو کونیو کا نام چین میں انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں شامل کر دیا گیا۔ انہوں نے عدالت کا سامنا کرنے سے انکار کرتے ہوئے 16 دسمبر سنہ 1945 کو سائینائیڈ سے بھرا زہریلا کیپسول کھا کر خودکشی کر لی۔

شیئر: