Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

21 اکتوبر کی تیاریاں: نواز شریف کی جماعت پنجاب تک محدود ہوگئی؟

اجمل جامی کے مطابق مریم نواز کے شاہدرہ کے چھوٹے جلسے نے بہت سارے دیگر سوال بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے قائد نواز شریف کی پاکستان واپسی پر استقبال کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اس موقع پر ’شو آف پاور‘ کے لیے اپنے کارکنوں کو مختلف انداز سے متحرک کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ 
پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے اس سلسلے میں کارکنوں سے براہ راست رابطوں کا آغاز بھی کر دیا ہے اور لاہور کے مختلف مقامات اور دیگر علاقوں میں اجلاسوں، ریلیوں اور جلسوں سے خطاب بھی کر رہی ہیں۔
جب سے نواز شریف کی واپسی کے لیے 21 اکتوبر کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوا ہے، مسلم لیگ ن کی مختلف سطح کی قیادت کی جانب سے ان کے استقبال کو تاریخی اور فقید المثال بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ پارٹی کا جو رہنما مطلوبہ تعداد میں لوگ نہیں لے کر نہیں آئے گا اس کو انتخابات کے لیے ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ 
تاہم پارٹی کی سرگرمیوں اور سیاسی مبصرین کی آرا سے ظاہر ہوتا ہے کہ استقبال کی یہ تیاریاں زیادہ تر پنجاب اور لاہور میں ہی ہو رہی ہیں اور ملک کے دوسرے حصوں میں ابھی اس کے متعلق کوئی خاص تقریب دیکھنے میں نہیں آئی۔ 

لوگوں کی شرکت کے لیے موبائل ایپ اور موٹرسائیکلوں کے تحفے 

لاہور میں اردو نیوز کے نامہ نگار ادیب یوسفزئی کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں اب تک ہونے والی ریلیوں میں عوام کی خاطر خواہ تعداد نظر نہیں آئی۔ ن لیگ لاہور کے مختلف حلقوں میں کارنر میٹنگز کر رہی ہے جن سے مریم نواز اور دیگر قائدین خطاب کر رہے ہیں مگر گذشتہ روز شاہدرہ میں ہونے والی ایسی ہی ایک کارنر میٹنگ میں لوگوں کی تعداد اندازوں سے کم بتائی جا رہی ہے۔ 
پارٹی کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ کے بقول ان کی تنظیم لوگوں کو 21 اکتوبر کے جلسے میں لانے کے لیے جدید طریقے اپنا رہی ہے اور انہوں نے ایک ایسی ایپ بنائی ہے جو یہ بتائے گی کہ21 اکتوبر کو کون سا کارکن جلسے میں شرکت کر رہا ہے اور کون گھر پر ہے۔ 
اس سلسلے میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے جلسے میں شرکت کرنے والے لوگوں کے لیے تحائف کا اعلان کر رکھا ہے جن میں موٹرسائیکل اور دیگر بیش قیمت اشیا شامل ہیں۔ 
لیکن ایک خاص بات یہ ہے کہ اب تک کی زیادہ تر کارنر میٹنگز گلیوں میں کی گئی ہیں جس سے لوگوں کی تعداد کا اندازہ نہیں ہو پا رہا۔ 
تاہم پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں نواز شریف کے استقبال کے لیے تاحال کسی سرگرمی کا آغاز نہیں ہوا۔ 

نون لیگ کے ’گڑھ‘ خیبر پختونخوا میں پراسرار خاموشی 

صوبہ خیبر پختونخواہ جو پنجاب کے بعد مسلم لیگ ن کا سب سے بڑا گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں پر ابھی استقبال کی تیاریاں شروع نہیں ہوئیں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صوبے میں اب بھی لوگوں کی اکثریت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتی ہے۔ 
پشاور میں اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض احمد کے مطابق مسلم لیگ ن کی خیبر پختونخوا شاخ نواز شریف کے استقبال کے سلسلے میں تاحال مکمل طور پر خاموش ہے۔

مسلم لیگ ن کی خیبر پختونخوا شاخ نواز شریف کے استقبال کے سلسلے میں  تا حال مکمل طور پر خاموش ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ کا قلعہ سمجھے جانے والے ہزارہ ڈویژن میں بھی استقبالیہ تیاریوں کے حوالے سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ابھی تک  نون لیگ کے رہنماوں کی جانب سے ورکرز کے لئے کوئی جلسہ ہوا ہے نہ ہی کوئی کارنر میٹنگ منعقد ہورہی ہے۔ جبکہ ہر محاذ پر آگے رہنے والے رہنما بھی منظر عام سے غائب ہیں ۔ 
صوبائی صدر امیرمقام کی جانب سے تمام عہدیداروں کو ورکرز کی تیاری کا ٹاسک تو سونپا گیا مگر اس ہدایت پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔ 
اس کے متعلق مسلم لیگ ن پشاور کے رہنما ارباب خضر حیات نے موقف اپنایا ہے  کہ پارٹی نے گزشتہ روز ہونے والے ایک اجلاس میں نواز شریف کے فقید المثال اسقبال کے لیے پارٹی ورکرز کو تیار کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ضلعی سطح پر اجلاس منعقد ہو رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری متعلقہ مقامی رہنماؤں کےحوالے کی گئی ہے۔ 
’پارٹی کارکنوں کو استقبال کے لیے ساتھ لانے کی ذمہ داری سابق رکن اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کی ہو گی۔‘ 

’سندھ کی قیادت ایسے کام نہیں کر رہی جیسے کرنا چاہیے‘ 

کراچی میں اردو نیوز کے نمائندے زین علی کے مطابق سندھ میں مسلم لیگ ن کے کارکن پارٹی کی مناسب تنظیم نہ ہونے پر صوبائی قیادت سے خائف ہیں۔ 
ماضی میں مسلم لیگ ن کے فعال رہنے والے کارکن پہلوان میاں محمد ہارون رشید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کراچی کی سطح پر پہلے کی طرح مضبوط تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ صوبہ سندھ کی قیادت اس طرح کام نہیں کر رہی جیسے کرنا چاہیے۔ 
’مسلم لیگ ن کے چاہنے والے پورے شہر میں موجود ہیں لیکن کچھ عرصے سے پارٹی کو کچھ مخصوص علاقوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے جس کا نقصان ہو رہا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ کارکن اپنی مدد آپ کے تحت استقبال کے لیے لاہور جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ 
تاہم ن لیگ سندھ کے رہنما علی اکبر گجر کے مطابق استقبال کے لیے قافلوں کی روانگی کی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے اور پہلا قافلہ بذریعہ ٹرین روانہ ہو گا۔ جبکہ 19 اکتوبر کو کراچی سے سڑک کے ذریعے بھی قافلے نکلیں گے اور سندھ کے دیگر شہروں کے عوام اس قافلے سے ملتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوں گے۔ 
علی اکبر کا مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کو صرف پنجاب کی پارٹی کہنا درست نہیں ہو گا۔ اگر کراچی کی بات کی جائے تو پچھلے بلدیاتی سیٹ اپ میں مسلم لیگ ن کراچی کی تیسری بڑی جماعت تھی، اس کے علاوہ عام انتخابات کے نتائج بھی دیکھے جائیں تو میاں محمد شہباز شریف سمیت ہمارے مقامی رہنماؤں نے کراچی سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے تھے۔ 

بلوچستان سے محدود قافلوں کی شرکت کے امکانات 

ملک کی دیگر بڑی جماعتوں کی طرح مسلم لیگ ن کا بھی بلوچستان میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے اس لیے یہاں سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لیے بڑی تعداد میں کارکنوں کے لاہور جانے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ 
تاہم مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے اردو نیوز کے نمائندے زین الدین احمد کو بتایا کہ ان کی تنظیمی سطح پر تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ 
’ضلعی اور ڈویژن کی سطح پر ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اور ہر ضلع اور ڈویژن سے قافلے 21 اکتوبر سے پہلے لاہور روانہ ہوں گے اور وہاں اپنے قائد کا استقبال کریں گے۔‘ 
تاہم صوبے میں زمینی سطح پر مسلم لیگ ن کی تیاریاں نظر نہیں آ رہیں۔ 

زِیرتعمیر بیانیے کا نقصان 

تجزیہ کار اور ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی کے مطابق دوسرے صوبے تو ایک طرف پنجاب سے بھی نواز شریف کے استقبال کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کا نکلنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ 
’جب بینظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کر کے لاہور آئی تھیں تو ان کے استقبالیہ جلوس کا ایک سرا مینار پاکستان اور دوسرا ایئرپورٹ پر تھا۔ ہونا تو اب یہ چاہیے تھا کہ ن لیگ کے لوگ ایئرپورٹ پہنچتے اور لاہور کی سڑکوں پر لوگ ہی لوگ ہوتے۔‘ 
’لیکن مسلم لیگ ن نے اس کے برعکس مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کو ترجیح دی اور پہلی مرتبہ اس کو بھرنے کا سوچا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس پنڈال کو بھی بھر سکیں گے، اور پھر کیا نواز شریف کی واپسی کا جلسہ اتنا بڑا اثر چھوڑ پائے گا جتنا بے نظیر بھٹو کے استقبال یا عمران خان کے اکتوبر 2011 کے جلسے نے چھوڑا تھا۔‘

ملک کی دیگر بڑی جماعتوں کی طرح مسلم لیگ ن  کا بھی بلوچستان میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اجمل جامی کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کا بیانیہ زِیرتعمیر رہا ہے اور ابھی تک زِیرتعمیر ہے، تو کیا اب آٹھ کروڑ نوجوان ووٹرز ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’مجھے کیوں نکالا‘ جیسے نعروں کے بغیر محض بریانی، موبائل ایپ، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے تحفوں کے وعدوں پر باہر نکل آئیں گے؟‘ 
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کے شاہدرہ کے چھوٹے جلسے نے بہت سارے دیگر سوال بھی کھڑے کر دیے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ ابھی تک مسلم لیگ ن کارکنوں سے جڑ نہیں سکی ہے۔ 
’ان پر 16 ماہ کی حکومت کی بری کارکردگی کا بوجھ ہے۔ یہ آج کے نوجوانوں سے اس طرح نہیں جڑ سکے جس طرح عمران خان یا تحریک انصاف جڑتی ہے۔ مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا عمران خان کے وی لاگز تک کا مقابلہ نہیں کر پایا۔‘ 

’لاہور سے لوگ نکلے تو ن لیگ ٹیک آف کرے گی‘ 

سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی سیاست کا محور پنجاب اور مرکز لاہور رہا ہے اور اب لاہور سے ہی لوگوں کو نواز شریف کے استقبال کے لیے نکلنا ہے۔ 
’دیکھنا یہ ہے کہ اس شہر سے لوگ نکلتے ہیں کہ نہیں۔ میاں نواز شریف نے لاہور کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ انہوں نے لاہور کو ترقیاتی سکیمیں دیں، روزگار دیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ لاہور کے لوگ ان کے استقبال کے لیے کتنی بڑی تعداد میں نکلتے ہیں۔‘ 
سلمان غنی کے مطابق مسلم لیگ ن کے کئی رہنما بھی مایوسی کا شکار ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کے اوپر ان کے چھوٹے بھائی کی 16 ماہ کی حکومت کی کارکردگی کا بوجھ ہے۔ 
’اگر 21 اکتوبر کو لوگ نکل آئے تو مسلم لیگ نواز ٹیک آف کر جائے گی۔‘ 

شیئر: