عمران خان کی سالگرہ: زمان پارک لاہور میں دن بھر کیا ہوتا رہا؟
عمران خان کی سالگرہ: زمان پارک لاہور میں دن بھر کیا ہوتا رہا؟
جمعرات 5 اکتوبر 2023 18:21
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
جمعرات کو سابق وزیراعظم عمران خان کا 71 واں یومِ پیدائش منایا گیا۔ عام طور پر اس دن تحریک انصاف کی جانب سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اِس بار چونکہ عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں تو ماضی کی طرح تقریبات منعقد نہ ہوسکیں۔
لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر ان کی سالگرہ منانے کے لیے دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کے لیے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے کارکن بھرپور مہم چلاتے نظر آئے۔
تاہم اس کے باوجود جمعرات کو زمان پارک میں کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
زمان پارک کے مرکزی گیٹ پر پولیس نفری تعینات تھی اور پولیس وینز سمیت پریزنر وینز بھی کھڑی تھیں۔
مرکزی دروازے سے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، تاہم گیٹ نمبر دو سے لوگ باآسانی جا سکتے تھے جبکہ پچھلے دروازے کو چند کارکنوں نے خفیہ راستے کے طور پر استعمال کیا۔
دعائیہ تقریب کے لیے ساڑھے 4 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ 4 بجے کے قریب عمران خان کے بہنوئی اور علیمہ خان تیسرے گیٹ سے اندر آئے۔
علیمہ خان نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے بات چیت شروع کی جو دیکھتے ہی دیکھتے تکرار میں بدل گئی۔
اتنے میں پولیس اہلکاروں نے وہاں موجود صحافی راحیل معاویہ کو کیمرہ مین سمیت گرفتار کر لیا جو یہاں دعائیہ تقریب کی کوریج کرنے آئے تھے۔ پولیس انہیں گرفتار کر کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ لے گئی۔ راحیل معاویہ نے رہائی کے بعد اردو نیوز کو بتایا ’ہم زمان پارک میں سالگرہ کی کوریج کرنے گئے تھے لیکن ڈی ایس پی کی علیمہ خان سے تکرار ہوئی۔ اُس کے بعد ہمیں گرفتار کیا گیا۔ ہمیں ایسا لگا کہ یہاں سالگرہ منانا تو منع ہی تھا شاید کوریج پر بھی پابندی ہے۔‘
مذکورہ واقعے کے بعد زمان پارک میں خاموشی چھائی رہی۔ مرکزی دروازے سمیت گیٹ نمبر ٹو پر پولیس اہلکار موجود رہے جو کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
اس دوران اُردو نیوز کی ٹیم زمان پارک کی حدود کے اندر موجود رہی۔ اِس دوران چند خواتین ہاتھوں میں سورۂ یاسین اور قرآن کریم لیے ’خفیہ دروازے‘ سے داخل ہوئیں اور اندر آتے ہی زمان پارک کے عقب میں بیٹھ گئیں۔ یہ خواتین پہلے صرف چار تھیں لیکن کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اتنے میں وہاں وہیل چیئر پر ایک معمر خاتون آئیں اور ساتھ ہی چار خواتین کا ایک اور گروپ بھی آگیا۔ اس دوران زمان پارک کے باغ میں پولیس اہلکار نماز ادا کر رہے تھے جبکہ خواتین اہلکار بھی وہاں موجود تھیں۔
یہ خواتین جب وہاں جمع ہوئیں تو صحافی بھی کیمرے لے کر پہنچ گئے۔ تمام خواتین نے وہاں عمران خان کے لیے دعا شروع کی۔ کچھ خواتین وہاں گفتگو کر رہی تھیں جس کو معمر خاتون بار بار آواز دے کر بتاتی رہیں ’بیٹھ جاؤ، قرآن پڑھ لو، دعا کرو، یہی وقت ہے دعا کا۔‘
یہ خواتین بات سن رہی تھیں لیکن مان نہیں رہی تھیں۔ ایک خاتون جو کچھ دیر وہاں گھومتی رہیں لیکن پھر ان خواتین کے ساتھ مل کر سب کو وٹس ایپ گروپ بنانے کے لیے راضی کرتی رہیں۔ یہاں مرد کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کی برابر تھی جبکہ خواتین بھی پندرہ سولہ ہی تھیں۔
ایک مرد کارکن گاڑی میں اپنے بچوں کو ساتھ لایا اور آتے ہی انہوں نے خواتین سے کہا کہ ’میں ذرا روشنی کا انتظام کر لیتا ہوں اندھیرا ہونے والا ہے اور مزید لوگ بھی آرہے ہیں۔‘
جب یہ بات ساتھ ہی کھڑی خاتون نے سنی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سامنے سول کپڑوں میں ایس ایچ او کھڑے ہیں۔ انہوں نے فون پر مزید نفری منگوائی ہے۔ ہم زیادہ دیر تک یہاں نہیں رک سکتے۔‘
اس کے بعد خواتین میڈیا نمائندگان کو انٹرویو دینے لگیں۔ کچھ خواتین کی میڈیا سے گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے یہ ’جذباتی تقریر‘خاصا وقت لگا کر یاد کی ہو۔
یہ خواتین میڈیا سے بات کرتے ہوئے رو بھی رہی تھیں اور عمران خان کے حق میں ذرا دھیمے آواز میں نعرے بھی لگا رہی تھیں۔ انٹرویو کے دوران ایک نوجوان لڑکی سب سے زیادہ متحرک نظر آئیں جو سب کو تحریک دے رہی تھیں۔
وہ سب کے پاس جاکر کہتیں کہ دعا کریں اور یہاں کھڑے رہیں۔ لیکن پھر اچانک منظر کچھ ایسا بدلہ کہ میڈیا نمائندگان کو بھی سمجھ نہیں آئی۔
سب سے متحرک لڑکی اور میڈیا کو بار بار انٹرویو دینے والی خاتون ایک چھوٹے بچے کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تیسرے گیٹ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ اس کے بعد مزید تین خواتین ایک ساتھ اُسی طرف چلی گئیں۔ جب تمام خواتین جانے لگیں تو میڈیا نمائندگان نے آپس میں چہ مگوئیاں شروع کر دیں کہ ’کیا تقریب کسی اور جگہ ہونے لگی ہے؟ یہ خواتین کہاں جا رہی ہیں؟‘
ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں اور مزید کچھ خواتین جانے کی تیاریاں کرنے لگیں کہ اتنے میں پنجاب پولیس کے ایک اعلٰی افسر وہاں پہنچ گئے۔
انہوں نے تمام خواتین کو وہاں سے جانے کا کہا اور پھر میڈیا نمائندگان کو ذرا سخت لہجے میں کوریج کرنے سے منع کیا۔ میڈیا نمائندگان اور پولیس میں تکرار بھی ہوئی لیکن کچھ ہی دیر میں زمان پارک کو خالی کرا لیا گیا۔
یہ اعلٰی افسر مسلسل بلند آواز میں بول رہے تھے کہ ’یہاں کوئی تقریب نہیں ہو رہی. یہاں سالگرہ منانا اور کوریج کرنا بھی منع ہے. آپ سب تعاون کریں اور یہ جگہ خالی کر دیں۔‘
پنجاب پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں حکم ملا ہے کہ یہاں کارکنوں کو کسی قسم کی تقریب نہ کرنے دی جائے۔‘
اس دوران تمام صحافی باہر آگئے۔ اتنے میں زمان پارک کے باہر کینال روڈ پر ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ لوگ رُک رُک کر سوال کر رہے تھے۔ ’کیا عمران خان واپس آگئے؟ یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘ اتنے میں ایک شخص اپنی ننھی بچی کو وہاں لے آیا جس نے تحریک انصاف کے جھنڈے سے بنایا گیا لباس پہنا رکھا تھا۔
اُس شخص نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہم بھی عمران خان کی سالگرہ منانے آئے تھے لیکن یہاں تو کچھ نہیں ہو رہا۔‘
اس کے بعد زینب حسن نامی ایک طالبہ وہاں پہنچیں جو عمران خان کو سالگرہ کی مُبارک باد دینے کے لیے اُن کی کچھ تصویریں پنسل سے بنا کر لائی تھیں۔
مرکزی دروازے پر پہنچتے ہی زینب حسن کو مایوسی ہوئی کیونکہ وہاں پولیس اہلکار تعینات تھے اور کسی قسم کی کوئی تقریب نہیں ہو رہی تھی۔