افغانستان کی چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار
افغانستان کی چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار
جمعرات 19 اکتوبر 2023 20:19
چین افغانستان میں سفیر تعینات کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
افغانستان کے عبوری وزیرِ کامرس حاجی نورالدین عزیزی نے کہا ہے کہ طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر چینی صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں شامل ہونا چاہتی ہے اور اس حوالے سے بات چیت کے لیے اپنی تکنیکی ٹیم چین بھیجے گی۔
چین سنہ 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اب تک دُنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو بیجنگ میں ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ فورم کی اختتامی تقریب میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں افغانستان کے عوری وزیرِ کامرس حاجی نورالدین عزیزی نے کہا کہ ’ہم چین سے درخواست کرتے ہیں کہ افغانستان کو پاکستان چین اقتصادی راہداری اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بننے کی اجازت دیں۔‘
نورالدین عزیزی نے کہا کہ طالبان انتظامیہ اپنی ایک تکنیکی ٹیم بھی چین بھیجے گی جو افغانستان کو ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ بننے میں پیش آنے والے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل بنائے گی۔ لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس منصوبے کا حصہ بننے میں انہیں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔
افغانستان چین کواپنے معدنی ذخائر پر کام کرنے کی پیشکش کر سکتا ہے اور کئی چینی کمپنیاں بشمول میٹلرجیکل کارپوریشن آف چائنہ ( ایم سی سی) پہلے ہی افغانستان میں کام کر رہی ہیں۔ میٹالرجیکل کارپوریشن موجودہ طالبان حکومت اور ماضی میں کابل میں مغرب کی حمایت یافتہ دیگر حکومتوں سے بھی تانبے کی کان کے منصوبے پر بات چیت کرتی رہی ہے۔
افغانستان کے عبوری وزیرِ کامرس نورالدین عزیزی کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں چین دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے وہیں اسے افغانستان میں بھی کرنی چاہیے۔‘
’افغانستان میں لتھیم، تانبہ، لوہا اور وہ تمام چیزیں ہیں جو چین کو چاہییں، افغانستان کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔‘
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) جینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے 2013 میں پیش کیا جانے والا منصوبہ ہے۔ (فوٹو: ای ایف پی)
افغانستان میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث رہی ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت کی کابل میں آمد کے بعد بھی شدت پسند تنظیم داعش متعدد سفارتخانوں اور چینی سرمایہ کاری سے بننے والے ایک ہوٹل پر حملہ کر چکی ہے۔
جب نورالدین عزیزی سے سکیورٹی چیلنجز کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیکیورٹی کی صورتحال کو برقرار رکھنا طالبان حکومت کی ترجیح ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’20 سالہ جنگ غیر ملکی افواج کے انخلا پر ختم ہوئی ہے اور طالبان نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصے محفوظ ہیں۔‘
سکیورٹی کی ظمانت دیتے ہوئے افغاستان کے عبوری وزیر نے بتایا کہ ’ اب ان تمام صوبوں میں میں جہاں صنعت، زراعت اور معدنی ذخائر ہیں وہاں سفر کیا جا سکتا ہے جو ماضی میں ممکن نہیں تھا۔‘
خیال رہے افغانستان اور دیگر 34 ممالک نے بدھ کو ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ فورم کی تقریب کے موقع پر ڈیجیٹل اکانومی اور گرین ڈیولپمنٹ پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
گزشتہ ماہ چین افغانستان میں اپنا سفیر مقرر کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔