لکھنے کی عادت کے انسانی صحت پر اثرات ’ورزش جیسے‘
تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ جب انسان اپنے خیالات کو ضابطہ تحریر میں لاتا ہے تو وہ قدرے پرسکون ہوجاتا ہے (فوٹو: پکسابے)
ماہرین اور محققین نے لکھنے کی عادت کو انسانی صحت کے لیے مفید قرار دیا ہے، خاص طور پر ادب، اشعار یا قصیدے لکھنے سے انسانی صحت پر کافی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ شعرا اور ادیبوں کی زندگی دیگر افراد سے زیادہ پرسکون اور طویل ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’کورٹیسول‘ ہارمون ہی جسم انسانی پرمثبت اثرات مرتب کرنے کا باعث ہے۔ جب کوئی شخص ذہنی تناؤ میں ہوتا ہے تو اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غدود میں ’ایڈرینل‘ نامی مواد پیدا ہوتا ہے جس کی کثرت سے پیٹ کی چربی میں اضافہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں جلد کی خشکی بھی بڑھ جاتی ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ ادیبوں اور شاعروں میں جب وہ اپنی تخلیق میں مصروف ہوتے ہیں تو ان میں اس مضر ہارمون کے اخراج میں نمایاں کمی ہوتی ہے جس سے انہیں ذہنی راحت ملتی ہے اور اس کے اثرات جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مناسب خوراک، بہتر نیند اور روزانہ کی ورزش سے ہماری صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم کیا آپ کو یہ بھی علم ہے کہ ’تحریر‘ کے بھی ایسے ہی اثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں جو ورزش کرنے یا بہتر نیند کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ’جب آپ قلم ہاتھ میں لے کر اپنے افکار و خیالات کو قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو گویا یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ نے ہاتھ میں سوئی پکڑی ہوئی ہو جو دکھائی نہیں دیتی۔ آپ اپنے ذہن سے نکلنے والے غیرمرئی دھاگے کو سوئی میں پروتے ہوئے افکار کو سیتے ہیں جس سے آپ کو ذہنی سکون ملتا ہے۔ یہ عمل بلکل ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ کو اپنے کپڑوں کی الماری میں رکھے بے ترتیب کپڑوں کو مرتب کرنے کے بعد سکون کا احساس ہوتا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ جب انسان اپنے خیالات کو ضابطہ تحریر میں لاتا ہے تو وہ قدرے پرسکون ہوجاتا ہے، جس سے اسے تازگی کا احساس بھی ہوتا ہے جو اس کی صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ لکھاریوں کی زندگی زیادہ پرلطف اور پرسکون ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ تر ذہنی خلفشار میں مبتلا نہیں رہتے۔ اپنی سوچوں کو ایک رخ دیتے ہیں اور انہیں صفحہ قرطاس پر مرتب کر دیتے ہیں جو ان کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس کے باعث وہ سکون حاصل کرتے ہیں۔