Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر میں کمی کے بعد کیا استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے؟

مقامی سطح پر گاڑی اسیمبل کرنے والوں نے ڈالر کے ریٹ کو جواز بنا کر قیمتوں میں اضافہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی کے بعد مقامی سطح پر اسیمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمت میں کمی کی گئی ہے، کیا نئی گاڑیوں کے ساتھ استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی ہوئی ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والوں سے رابطہ کیا جائے تو ان کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ 
موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر قرار دے رہی ہے۔ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جس تیزی سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اسی کے حساب سے مقامی سطح پر گاڑی اسیمبل کرنے والوں نے ڈالر کے ریٹ کو جواز بنا کر گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ اب جب ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی جارہی ہے تو اس کا فائدہ صارف تک پہنچنا چاہیے، لیکن یہ فائدہ پہنچتا نظر نہیں آرہا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کم بجٹ میں چھوٹی گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد پریشان ہی ہیں۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی چھوٹی گاڑیوں سمیت امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں کی قیمت میں 8 سے 20 لاکھ روپے تک کا اضافہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے، جبکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی اس حساب سے نہیں کی گئی ہے۔ 
ایچ ایم شہزاد کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قیمت 325 روپے تک گئی جس کو جواز بناتے ہوئے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، اس وقت مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 280 سے 290 روپے کے درمیان ہے، اس طرح ڈالر کی قیمت میں تقریباً 35 روپے کمی ہوئی ہے، لیکن اس حساب سے گاڑیوں کے ریٹ کم نہیں کیے گئے ہیں۔ 
واضح رہے کہ کار ساز کمپنی ٹویوٹا نے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں 13 لاکھ روپے سے زائد تک کی کمی کر دی ہے۔ کمپنی کے مطابق  ٹویوٹا یارس 1.3 جی ایل آئی (ایم ٹی) کی قیمت 44 لاکھ 99 ہزار سے کم ہو کر 43 لاکھ 99 ہزار ہوگئی ہے۔ اسی طرح یارس 1.5 اے ٹی آئی وی ایکس (ایم ٹی) کی قیمت ایک لاکھ 20 ہزار روپے کی کمی کے بعد 53 لاکھ 9 ہزار ہوگئی ہے۔   کرولا 1.6 ایم ٹی کی کی قیمت میں دو لاکھ روپے کی کمی ہوئی ہے جس کے بعد اِس کی نئی قیمت 59 لاکھ 69 ہزار ہوگی۔ اسی طرح کرولا 1.6 سی وی ٹی میں دو لاکھ 10 ہزار کی کمی ہوئی ہے جس کے بعد اِس کی قیمت 65 لاکھ 59 ہزار روپے ہوگئی ہے۔
 صرف یہ ہی نہیں، ٹویوٹا رِیوو جی آر ایس کی نئی قیمت 7 لاکھ 90 ہزار روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 35 لاکھ ہوگئی ہے۔ ٹویوٹا نے اپنی گاڑیوں میں سب سے زیادہ کمی فارچونر جی پیٹرول میں کی ہے جس کی نئی قیمت 13 لاکھ  10 ہزار روپے کی کمی کے بعد 1 کروڑ 44 لاکھ 99 ہزار روپے ہوگئی ہے۔ فارچونر وی پیٹرول کی نئی قیمت 11 لاکھ روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 99 لاکھ روپے ہوگئی ہے، جبکہ فارچونر جی آر ایس کی نئی قیمت 11 لاکھ 90 ہزار روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 89 لاکھ 9 ہزار روپے ہوگئی ہے۔
اس سے قبل لکی موٹر کارپوریشن (ایل ایم سی) اور ایم جی موٹرز نے بھی پاکستان میں اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا۔
کیا 660 سے 1000 سی سی تک کی استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمت میں کمی ہوئی ہے؟

موٹر ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے میں وقت لگے گا (فوٹو: اے ایف پی)

موٹر ڈیلرز کے مطابق مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد ابھی تک مارکیٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے میں وقت لگے گا۔ نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بہت تیزی سے استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک اپنے ریٹ پر گاڑی فروخت کر رہا ہے۔ 
کیا پرانی گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کا کوئی فارمولا موجود ہے؟
ایچ ایم شہزاد کے مطابق ایسا کوئی فارمولا موجود نہیں ہے جس سے اس بات کا تعین کیا جاسکا کہ نئی گاڑی کے ساتھ پرانی گاڑی کے ریٹ کو کم یا زیادہ کیا جاسکے۔ ہر ایک اپنے حساب سے مارکیٹ میں کام کر رہا ہے۔ 
کراچی جمشید روڈ پر شوروم کے مالک محمد فواذ بھی ایچ ایم شہزاد کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مڈل کلاس صارف کے لیے اس وقت گاڑی خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ جو چھوٹی گاڑی 660 سی سی، 008 سو سی سی یا 1000 سی سی کی استعمال شدہ  گاڑی کے خریدار تھے وہ اب بھی پریشان ہیں۔ 10 سے 15 لاکھ روپے کی رینج میں کم چلی ہوئی اچھی گاڑی اب مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1300 اور 0015 سی سی کی 15 سے 20 سال پرانی گاڑیاں اس وقت مارکیٹ میں 8 سے 13 لاکھ روپے میں فروخت ہو رہی ہیں۔  
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں شرح سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے بینک سے گاڑی لیز پر لینے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے۔ مارکیٹ میں گاڑیوں کے خریدار معمول سے بہت کم ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں نئی گاڑیاں بنانے والی کمپنیز بھی مسلسل اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ 
کیا امپورٹ ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے؟

مالک محمد فواذ کا کہنا ہے کہ مڈل کلاس صارف کے لیے اس وقت گاڑی خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آل پاکستان موٹر امپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے جو گاڑیاں پاکستان بھیجی جاتی ہیں ان کی قیمتوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں ہوسکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے ریٹ کم ہوئے ہیں، امید ہے اس کا اثر مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ درآمدی گاڑیوں پر بھی ہوگا، لیکن اس میں وقت لگے گا۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں گاڑیاں امپورٹ کرنے کا واضح قانون موجود ہے، پاکستان میں صرف بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ہی گاڑی بھیج سکتے ہیں۔ اس لیے امپورٹرز کا گاڑی کو پاکستان منگوانے یا اس کے ریٹ طے کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
’اووسیز پاکستانی اپنے پیاروں کو گاڑیاں بھیجتے ہیں۔ ان میں اگر کوئی فروخت کرتا ہے تو ہم پاکستان میں ان سے گاڑی خریدتے ہیں اور گاڑی کی قیمت فروخت کرنے والے کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، پرانے ریٹ پر منگوائی گئی گاڑیوں کے ریٹ اسی حساب سے ہیں اب اگر ریٹ کم ہوئے ہیں تو اس کا اثر آنے میں وقت لگے گا۔‘

شیئر: