Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز کے ساتھ عمران بھی لپیٹ میں آگئے

دونوں ہی نااہل ہوگئے تو پھر پاکستانی سیاست کیا رخ اختیار کریگی، کس موڑ پر کھڑی ہوگی، یہی تو دیکھنا ہوگا
* * * * صلاح الدین حیدر* * * * *
یک نہ شد دو شد۔آپ بھی کہیں گے کہ کہاں کی کوڑی لے آئے حیدر صاحب آج! جی بہت پرانی مثل ہے اور تو مجھے کچھ سُوجھا نہیں، سوچا بھولی بسری یادوں کا ہی سہارا لے لیا جائے۔ جی ہاں حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ اس ضرب المثل پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ یہی کچھ تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کے ساتھ ہوا۔ وہ برسوں کی محنت کے بعد منزلِ مقصود کے قریب نظر آرہے تھے کہ اچانک آسمانی بجلی خود اُن کے سر پر آگری۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راولپنڈی سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے رکن حنیف عباسی نے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دیدی کہ عمران خان کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں کہ آخر انہوں نے اتنی لمبی چوڑی اراضی (تقریباً 200 کنال، جو کہ ایک لاکھ مربع گز پر محیط ہے) اپنا فارم ہائوس اسلام آباد کے مضافاتی محلے بنی گالا میں کیسے بنالیا، دولت کہاں سے آئی، اتنی مہنگی زمین آخر خریدی کیسے گئی۔ عمران نے جواباً عدالت کو بتایا کہ اُنہوں نے 18 سال انگلینڈ میں کرکٹ کھیلی۔ 1983 میں اُنہوں نے اُس آمدنی سے لندن میں ایک فلیٹ خریدا جو اس صدی کے اوائل میں 6,50000 پونڈز میں بیچ دیا۔
اُسی پیسے سے اُنہوں نے پاکستان میں زمین خریدی، لیکن اُس کی بھاری قیمت میں اُن کی پہلی بیوی جمائما (جو دُنیا کی امیر ترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں) نے بقیہ پیسے تحفے کے طور پر عمران کو دیئے۔ اُس کے کاغذات بھی موجود ہیں۔ انگلینڈ سے رقم بینکوں کے ذریعے 3یا4اقساط میں پاکستان بھیجی گئی، جس کا حساب سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا ہے، لیکن کچھ تضادات پھر بھی حل طلب ہیں۔ مثلاً یہ کہ رقوم کیسے اور کن طریقوں سے بھیجی گئیں، کس بینک کے ذریعے منتقل کی گئیں۔ عدالت عظمیٰ کے سینیئرجج جسٹس آصف کھوسہ نے بہت سے سوالات عمران خان سے کرڈالے اور اُنہیں ایک ہفتے کا وقت دیا کہ عدالت کی تشفی کریں۔ جمائما جو 2002 میں لندن واپس چلی گئی تھیں اور پھر بعد میں عمران اور ان کے درمیان طلاق ہوگئی تھی، جمائما نے دوسری شادی کی۔ عمران نے بھی دوسری شادی ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سے کی لیکن وہ بھی ناکام رہی۔
عمران کے وکیل فواد چوہدری کے مطابق مزید معلومات سپریم کورٹ کو پہنچادی جائیں گی۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کے اہل خانہ خاصی تکلیف میں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز کو 27 تاریخ کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی طرف سے نوٹس ملا کہ وہ دوسرے دن یعنی 28 مئی کو جے آئی ٹی کے سامنے حاضر ہوجائیں اور تمام دستاویزات ہمراہ لائیں۔ اُن کے مطابق وہ جدہ میں تھے اور 23 مئی کو پاکستان پہنچے تھے، اُن کیلئے مزید مہلت درکار تھی تاکہ طلب کیے جانے والے کاغذات وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش کرسکیں۔ اس درمیان حسین نواز نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دیدی کہ اُنہیں جے آئی ٹی کے2 ارکان (جن کا تعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن سے ہے) پر اعتراض ہے، اُن میں سے ایک عمران خان کے قریب ہیں اور دوسرے کے بارے میں یقین نہیں کہ وہ ذمے داری دِکھائیں گے۔ سپریم کورٹ نے حسین نواز کی دونوں درخواست رد کردیں اور جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ وہ پہلے کی طرح اپنا کام جاری رکھے اور دن رات، بلکہ چھٹیوں میں بھی اتوار یا کسی اور چھٹی کے دنوں میں بھی کام بند نہ کرے۔ یہ تکلیف دہ مرحلہ تھا حسین نواز کیلئے، اس لئے کہ پاکستان میں تو قانون صرف غریبوں اور لاچاروں کیلئے ہی ہوتا ہے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا مقولہ یہاں پر عشروں سے لاگو ہے۔
حسین نواز کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وزیراعظم کے بیٹے کی بھی گرفت ہوسکتی ہے۔ اُنہیں 2گھنٹے انتظار کرایا گیا، پھر 4گھنٹے سوالات کیے گئے اور اس طرح 6 گھنٹے کے طویل اور صبر آزما لمحات کے بعد اُنہیں رخصت ملی۔ بظاہر تو حسین نواز پُراعتماد دِکھائی دیتے تھے لیکن چہرے سے گھبراہٹ عیاں تھی۔ اُنہوں نے سخت الفاظ میں میڈیا کو بتایا کہ اُنہوں نے ہر سوال کا جواب دیا اور دوبارہ بلایا گیا تو وہ دوبارہ بھی آئیں گے لیکن ایک جملہ کہ ’’صرف وہی سوالات کے جواب دیے جائیں گے اور وہی درخواست فراہم کی جائیں گی جو قانون کے مطابق ہوں‘‘ سے اُن کے لہجے کی تلخی صاف ظاہر تھی۔ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد، جو پہلے اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر تھے اور جن پر عمران خان نے علی الاعلان الزام عائد کیا تھا کہ وہی نواز شریف کی دولت ملک سے باہر بھجوانے میں آگے آگے تھے، اسی وجہ سے اُنہیں اتنے اہم عہدے سے نوازا گیا ہے۔
انہی سعید احمد سے پہلے روز 2 گھنٹے اور دوسرے روز 13 گھنٹے مسلسل پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کام کررہی ہے، پھر اسے کیا خوف ہوگا۔ حکومتی حلقوں میں ہلچل صاف نظر آرہی ہے۔ معاملہ عدالت کا ہے اور وہ بھی عدالت عظمیٰ کا، جو ملک کی سب سے بڑی انصاف کی جگہ ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اُس کے احکامات سے روگردانی کرسکے۔ جے آئی ٹی کے ارکان اس سے بخوبی واقف ہیں کہ اُن کی بھی گرفت ہوسکتی ہے بلکہ جیل تک جاسکتے ہیں اسی لئے وہ بڑی تندہی سے اپنے فرائض ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ ’’ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘ حکومتی عہدے دار اب اپنے الفاظ کے چنائو میں بڑے محتاط نظر آتے ہیں۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی احتیاط کا دامن پکڑ لیا ہے کہ کہیں اُنہیں بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ بات یہاں تک ہوئی کہ (ن) لیگ کے سندھ کے رہنما نہال ہاشمی نے ایک دھواں دھار تقریر کرڈالی کہ وزیراعظم کے بیٹے کو کیسے بلایا گیا اور بھی بہت کچھ کہہ ڈالا جو یہاں لکھنا مناسب نہ ہوگا، لیکن فوراً ہی مریم اورنگزیب نے اُن کے بیان سے حکومت اور پارٹی کی لاتعلقی کا اعلان کردیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ نہال ہاشمی کیخلاف کارروائی ہوگی۔ حکومت آئین اور قانون کی پابند ہے، پھر اس طرح کی تقریر غیر مناسب تھی اور پارٹی کے اصولوں کیخلاف۔کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے تو نواز شریف سپریم کورٹ سے جھگڑا کرکے نتائج بھگت چکے ہیں، اب وہ دوبارہ غلطی نہیں کرنا چاہتے۔
ان تمام واقعات کا ملکی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔ یہ بات اب یقین سے کہی جاسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم کو بھی طلب کرے، حسن نواز اور شاید مریم نواز بھی بلالئے جائیں۔ شریف خاندان مشکل میں ہے، اس بات پر تو تمام مبصرین متفق ہیں۔ تلوار اگر نواز شریف پر لٹک رہی تھی تو اب عمران خان بھی اس کی زد میں ہیں۔ سپریم کورٹ قانون کے مطابق فیصلہ کریگی۔ قانون سب کیلئے یکساں ہے۔ اگر نواز شریف کیخلاف فیصلہ آتا ہے اور عمران خان کیخلاف بھی، گو فی الحال وثوق سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ماہرین قانون اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر دونوں ہی نااہل قرار پائے تو ملک کی2بڑی پارٹیاں سیاست سے علیحدہ تو خیر نہیں ہوں گی لیکن قائدین سے محروم ہوجائیں گی۔ ایسے حالات میں انتخابات خاصی اہمیت اختیار کرجائیں گے۔ نواز اور عمران دونوں ہی مقبول ترین لیڈر ہیں۔ دونوں ہی نااہل ہوگئے (جس کا اندازہ اب ہونے لگا ہے) تو پھر پاکستانی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی، کس موڑ پر کھڑی ہوگی، یہی تو دیکھنا ہوگا۔

شیئر: