انسان اپنے مفادات کی خاطر معیار بدلتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی سنتوں کو نہیں بدلتا، اس کے ہاں کل بھی بندے کی عزت کامعیار تقویٰ تھا اور آج بھی تقویٰ ہے
* * * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ* * * * *
رحمان اور رحیم، رب کریم کا یہ بے حد کرم ہے اور اسکی بندگان مؤمنین سے خصوصی محبت کہ اس نے ان کی جسمانی وروحانی، ظاہری اور باطنی تربیت کا انتظام نہایت اہتمام سے فرمایا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حضرت انسان سے اور اسکی مخلوقات میں سے اشرف مخلوق کے لئے بے حد محبت ہے کہ اس نے اس کائنات میں انسان کی بطور انسان تکریم کا قطعی فیصلہ قرآن کریم میں یوں فرما دیا کہ ’’یقینا ہم نے بنی آدم کو تکریم عطا کی ہے‘‘۔ پھر اسکی ان میں سے مؤمنین کے ساتھ خصوصی عنایت ہے کہ اس نے ان کے بارے میں یوں فرمایا:تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ مکرم وہ لوگ ہیں جو تم میں سے تقویٰ میں زیادہ ہیں‘‘۔ پھر مولائے کریم کا یہ کرم ہے کہ تقویٰ کی دولت کا حصول ایک سہل الوصول امر ہے اور اس کے حصول کے لئے باری تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کو بے شمار مواقع اور خصوصی موسم بنائے ہیں۔ ایسے مواقع اور موسم جن میں تقویٰ کی دولت اور یہ بہترین زاد راہ ہر بندئہ مؤمن آسانی سے سمیٹ سکتا ہے ،ان میں سے ایک رمضان المبارک ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں اپنے بندگان مؤمنین اور عباد الرحمن کو مکرم بندے بنانے کی خاطر اور انہیں تقویٰ کی دولت سمیٹ نے کی خاطر ہی اس فرصت کو ہر سال انہیں مہیا کر رکھا ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کے شب روز میں ہمارا رب کریم اپنے پورے غیبی نظام کو حرکت میں لے آتا ہے۔ رحمان کی رحمتیں کو موسلا دھار بارش کی طرح اس کائنات کے علوی اور ارضی نظام کو خوب سیراب کرتی ہیں، اس کے انوارات خاصہ سے عالم کا ذرہ ذرہ منور ہونے لگتا ہے۔ اس بابرکت زمانہ کی آمد پر اسکی مہک سے ہر نفس مؤمنہ معطر ہونے لگتا ہے۔ یہی ماہ مبارک کی آمد ہے، اس کا بندوں پر سایہ فگن ہونا ہے، یہی رمضان کریم کا دخول ہے۔ اللہ رب العالمین نے جب یہ اعلان کر دیا کہ میرے ہاں عزت تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور جو تقویٰ کے جس مقام پر ہوگا ،وہ عزت کے بھی اسی مقام پر ہوگا۔ پھر سب سے بڑھ کر عزت والا وہی ہے جو تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ تکریم جو کلام ربانی میں ثبت ہے۔ یہ اللہ کی وہ سنت ہے جو پہلوں اور پچھلوں سبھی میں اس نے قائم کی اور اسمیں کوئی تبدیلی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں تم ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے۔ یہ تو انسان ہیں جو اپنے مفادات اور مصلحتوں کی خاطر اپنے ضابطے اور معیار بدلتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی سنتوں کو نہیں بدلتا۔حضرت انسان کے لئے اس کا عہد قدیم ہو یا دور جدید، اللہ تعالیٰ کے ہاں کل بھی بندے کی عزت کامعیار تقویٰ تھا اور آج بھی تقویٰ ہے اور آئندہ کل بھی تقویٰ ہی ہوگا۔ پھر اس کی کتاب ہدایت وہ اہل تقویٰ ہی کے لئے راہنما بھی ہے ،اس نے فرمایا ہے ’’ہدی للمتقین‘‘ یہ کتاب اہل تقویٰ ہی کے لئے ہدایت ہے۔ اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے،تمام مخلوقات کو پالنے والا ہے، ان کی تربیت کرنے والا ہے، ان کی حاجات کو پورا کرنے والا ہے، اس نے اپنے بندوں کی جسمانی حاجات کے لئے بے شمار نعمتوں کو غذا کے طور پر پیدا کیا جبکہ روحانی غذا کے لئے صرف تقویٰ کو ہی زاد راہ قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں فرمایا ہے اور تم جمع کرو زاد راہ کو، یقینا بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
اب تقویٰ کیا ہے؟ اہل تقویٰ کون لوگ ہیں؟ رب العالمین نے تقویٰ کے حصول کے لئے کیا کیا اسباب میسر کر رکھے ہیں؟ پہلا امر کہ تقوی کیا ہے، اس کا سادہ معنی اللہ کا ڈر ہے جو انسان کا اندر کا فعل ہے اور اندر کا معاملہ غیب کا معاملہ ہوتا ہے اور یہ غیب کا امر صرف انہیں ہی حاصل ہوگا جو ’’الذین یؤمنون بالغیب‘‘ جو غیبت کو مانتے ہیں تو ایمان بالغیب قرآن کریم نے اہل تقویٰ کی پہلی صفت بتائی ہے جبکہ دوسری صفت قرآن کریم نے یہ بتائی ویقیمون الصلوٰۃ اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور تیسری صفت یہ بتائی ومما رزقنا ہم ینفقون اور ہمارے عطاکردہ اموال سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں۔یہ اہل تقویٰ کی صفات ہیں اور یہ اللہ کے ہاں مکرم اور رفیع الشان لوگوں کی شان ہے کہ وہ غیب پر یقین رکھتے ہیں اور امور غیبیہ میں سے سب سے عظیم امر رب العالمین پر ان کا پختہ یقین ہے۔
اس ذات کے لئے ان کی بدنی عبادت نماز اور مالی عبادت انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ یقینا یہ تمام امور عالم غیب کے ہیں۔ عالم شہود کے نہیں، یہ ایسی عالی صفات ہیں جو حضرت انسان میں فکری ارتقا پیدا کرتی ہیں اور بندئہ مؤمن مادیات کی کثافتوں سے اپنی ایمانی نگاہ کو آزاد کرلیتا ہے۔ پھر اس کی نظراس فانی عالم سے نکل کر وہاں تک پہنچ جاتی ہے جو ہمیشہ اور باقی رہنے والے حقائق ہیں جن کا ادراک بغیر تقویٰ کی روشنی کے ممکن نہیں۔ آج انسانی نگاہ کوتاہ ہوچکی، وہ باقیات سے غافل فانیات میں گم ہوچکی۔ اس دنیا کی مادی آلودگیوں اورمعصیت کی ظلمتوں نے اس کی ایمانی بصیرت کی نور کو دھندلا کر دیا ہے کہ اس کی نگاہ اس عالم کے ماورا تک پہنچنے سے قاصر ہوگئی حالانہ قرآن کریم کا ارشاد ہے ’’اور دنیا کی یہ زندگی صرف کھیل اور تماشہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ اب اس حقیقت کو ہمیں کون سمجھائے ،ہماری نگاہ کو کون بصیرت عطا کرے کہ ہم کھیل تماشہ اور حقیقی زندگی میں تمیز کرسکیں۔ یہ روشنی اللہ رب العالمین تقوی کے ذریعہ ہی ہمیں فراہم کرنا چاتا ہے۔ اگرہمارے جسم کے لئے رب العالمین نے خوراک اور پوشاک ہمیں فراہم کی تو ہماری روح کی نشو نما، ہماری بصیرت کے ارتقا کے لئے تقویٰ کا زاد راہ ہمیں آسانی سے رب رحیم نے فراہم کردیا ۔
اس تمہید طولانی کے بعد غرض صرف اتنی ہے کہ ہم مولائے کریم کے مہمان رمضان کریم کی عظمت کو جان سکیں جسے اللہ تعالیٰ نے محض دولت تقویٰ سے ہمیں مالا مال کرنے کیلئے ہمارے پاس بھیجا ہے۔ پھر یہ کرم اس کا ہمارے سے پہلے بندوں پر بھی ہواہے اور یوں روزہ اور تقویٰ رب العالمین کی طرف سے پہلوں اور پچھلوں کی تربیت کا مظہر رہا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے تقویٰ کا تاکیدی رکن تم سے پہلے لوگوں کو بھی دیا اور تمہیں بھی، ایسے ہی قرآن کریم روزہ کے بارے میں کہتا ہے’’اے ایمان والو تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جیسے کہ تم سے پہلوں پر بھی تاکہ تم متقی بن جاؤ، جس سے یہ ثابت ہوا کہ رمضان تقویٰ کا موسم ہے۔ اب آپ نے تقویٰ کی صفات بھی جان لیں، تقویٰ کا موسم بھی پہچان لیا توکچھ اس میں بھی تدبر کرلیں کہ اس بابرکت موسم میں تقویٰ کی عظیم دولت کے لئے رب العالمین نے اپنی طرف سے اپنے غیبی نظام کو کس طرح تشکیل دے رکھا ہے۔
ہم اپنا مقصد آسانی سے حاصل کرسکیں ۔باری تعالیٰ نے جو دستر خوان اس ماہ مبارک میں سجایا گیا ہے، اسے تقویٰ ہی سے مزین فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اے ایمان والو تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جیسے تم سے پہلوں پر تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔ ہم تدبر کریں کہ یہ ماہ مبارک اپنی جملہ برکتوں اور رحمتوں سمیت خود آتا ہے، پوری دنیا پر آتا ہے، تمام بر اعظموں پر آتا ہے، اس میں رحمان کی طرف سے نازل ہونے والی رحمات کو کوئی روکنے والا نہیں مگر انہیں وصول کرنے کے لئے کچھ محنت بندوں سے بھی درکار ہے۔ باری تعالیٰ نے اپنے بندوں میں تقویٰ کے زاد راہ کو تقسیم کرنے کے لئے کس قدر اسباب پیدا کر رکھے ہیں۔ قرآن وسنت سے ثابت ہے کہ اس ماہ کریم میں عالم علوی کو عالم ارضی سے یوں جوڑ دیا گیا کہ وہاں کے رہنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کے معصوم فرشتے بکثرت نیچے اترتے ہیں۔ ان کا اترنا یقینا ایمان کی نظر سے محسوس ہوتا ہے۔ پھر رحمت کے فرشتوں کی انسانوں کے ساتھ معاشرت ان کے لئے ایمان میں تقویت اور ان کے قلوب میں طاعات سے محبت کا سبب ہوتی ہے ۔بندوں کا تزکیہ ہوتا ہے، ان کے قلوب سے کفر وفسق سے نفرت کا موجب اور ایمان ویقین میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے اور یوں اہل ایمان کے لئے عمل صالح آسان ہوجاتے ہیں۔
یہی تقویٰ کا اولین ثمر ہے۔ یہ بھی رب کریم کا اس خیرات کے موسم میں خصوصی انتظام ہے کہ وہ اس ماہ مبارک میں بندوں کے عمل کی قیمت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ وہ اپنی جنتو ں کو خوب سجا دیتا ہے تاکہ وہاں لازوال نعمتیں بندوں کے اندر ان کے حصول کا اشتیاق پیدا کریں اور یہ شوق اہل تقویٰ اس بابرکت موسم میں خوب محسوس بھی کرتے ہیں۔ نظام ارضی میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ برو بحراور اس کے نظام فلکی میں شمس وقمر ،اس ماہ مبارک کی آمد کی نوید سناتے ہیں اور بندوں بر نازل ہونے والی رحمتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ سبھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے یہ سب کچھ اپنے زیر تربیت بندوں کو تقویٰ کی دولت فراہم کرنے کے لئے نہایت سازگار ماحول مہیا کر رکھا ہے۔ بندئہ مؤمن کو ان تعلیمات کا شعور وادراک اور استحضار رہنا ضروری ہے، خود نبی کریم نے اپنے ارشاد مبارک میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ شہر صیام بھی ہے اور شہر قرآن بھی۔
نزول قرآن کو اس ماہ مبارک کے ساتھ خاص فرمانا، اپنی ہمیشہ کی جنتوں کو اس ماہ میں سجانا، دوزخ کے دروازوں کو اس موسم میں بند کرنا، شیاطین کو جکڑنا، عالم علوی سے فرشتوں کو اس ماہ مبارک میں بکثرت اتارنا، نفل فرض کے برابر ہوجانا، فرض70 فرضوں کے برابر ہوجانا، بندوں کے عمل کا کئی کنا بڑھ جانا، یہ پورا سلسلہ بندوں کو بسہولت تقویٰ کی نعمت سے مالا مال کرنے ہی کی خاطر ہے۔اللہ کے بندے جس قدر وہ تقویٰ میں بڑھتے چلے جائیں ،اس قدر اللہ کے ہاں عزت وسرفرازی کے حقدار بنتے چلے جائیں۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ قائم کردہ ایسے غیبی حقائق ہیں جو ہمارے ایمان مسلمات ہیں۔ ان کا استحضار اور شعور یقینا ہمیں اس مبارک موسم میں بہترین زاد راہ تقویٰ کے حصول میں خوب معین ومدد گار ہونگے۔ اس امر میں بھی غور کریں کہ رمضان کو قرآن کا مہینہ کہا گیا ہے، یہ صرف اس لئے نہیں اس تاریخی معلومہ کو ہم یاد رکھیں بلکہ یہ اس لئے ہے کہ ہم رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو سمجھ سکیں اور یہ خیر امت رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے وابستہ رہے۔
روزہ دار فرط محبت سے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور نماز تراویح میں کمال ادب کے ساتھ اسکا سماع کریںاور اس کی تعلیمات سے اپنے اخلاق کو مزین کریں پھر دیکھیں کہ خیر امت کس طرح خیر الکتب سے عزت وسرفرازی پاتی ہے ۔اس کتاب کے نزول کی غرض ہی یہ ہے کہ اہل تقویٰ کے لئے راہنما کتاب ہے ۔یہ متقین کے لئے ہی ہدایت کاسر چشمہ ہے۔ رمضان کریم کا یہ بابرکت موسم ہمارے لئے اس روحانی لذت کے حصول کا بہترین زمانہ ہے۔ رمضان ہمیں قرآن کے ساتھ جوڑ دے اور قرآن کریم ہمیں سرفراز فرمادے اور ہمارے رب سے ہمارے رشتے کو مضبوط کردے۔ خیر امت یوں اس کتاب سے جڑ کر ہی رفیع الشان ہو گی۔ نبی کریم نے فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ بعض لوگوں کو رفعتیں عطا فرمائے گا اور بعض کو پست کردے گا۔ اس کتاب کے ساتھ وابستگی یہی ہے کہ اسکی آیات کی تلاوت کی جائے ،اسے ادب ومحبت سے سنا جائے اور اسکی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ یوں اہل قرآن رفعت شان والے انسان ہونگے اور اگر لوگ اس کتاب عظیم کے ساتھ عظمت والا معاملہ نہیں کریں گے، نہ وہ اسکی آیات کی تلاوت کریں گے، نہ ادب ومحبت سے اس کا سماع کریں، نہ اسکی تعلیمات اپنائیں تو یہ رویہ ان کی طرف سے اس کتاب کا ہجر شمار ہوگا۔ گویا یہ ان کی طرف سے اسے ترک کردینا ہے اور یہی رویہ ان کی رسوائی کا سبب بنے گا۔
قرآن کریم میں ہے، کہ ’’روز قیامت مہبط قرآن انہی لوگوں کے بارے میں فرمائیں گے کہ اے میرے رب اس قوم نے اس قرآن کو مہجور کردیا، لہٰذا امت محمدیہ کے لئے یہ مبارک ماہ قرآن کریم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلقات کو استوار کرنے کا مہینہ ثابت ہونا چاہئے۔ہم میں سے ہر ایک کو اس امر کا عزم کرنا چاہئے کہ ہمیں رمضان میں قرآن کو خوب پڑھنا اور سننا ہے۔ یہ قرآن باری تعالیٰ کا معجز کلام ہے جس کے الفاظ اور مضامین سبھی میں صفت اعجاز موجود ہے۔اس امر کا استحضار بھی ہمیں رہنا چاہئے اور یہ خود ہمارے اندر تقوے کی صفت کو راسخ کرنے میں معین مدد گار ہوگا کیونکہ قرآن پاک کو آج بھی پورے انس وجن کویہ چیلنج کر رہا ہے کہ وہ تمام مل کر بھی اس جیسی ایک سورت بھی نہیں لاسکتے۔
قرآن کریم جو رشدو ہدایت کا روشن مینارہ ہے، جسکی تعلیمات مبنی بر حق ہیں، جس میں کھوٹ نہیں۔ وہ سراپائے حق ہے کہ باطل اسکے قریب بھی بھٹک نہیں سکتا۔ اس کا ترک کرنا خسارہ ہے۔ اسکے ماسوا میں نری گمراہی ہے، نری پستی ہے، لہٰذا امت کو ہمیشہ اس کی قدر دانی کرنی ہوگی اور اسی سے انہیں سرفرازی ملتی رہے گی۔ اس ماہ مبارک میں روزہ داروں کو قرآن سے اپنا خصوصی تعلق قائم کرنا ہے، بندہ میں حقیقت تقویٰ اور غیب پر محکم ایمان یقین بڑھانے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے، ماہ مبارک میں اہل تقویٰ کی صفات ان میں خوب ابھرتی ہیں، روزہ دار فجر سے مغرب تک پورا دن بھوک پیاس کی سختی برداشت کرتا ہے اور یہ محض اللہ کی عظمت، اسکے خوف اور محبت اور رضا کے حصول کی خاطر ہی کرتا ہے، جس پر اسکا ایمان بالغیب ہے، پھر ایمان بالغیب کے ساتھ اہل تقویٰ کی دوسری صفت اقامت صلوٰۃ ہے۔ اس ماہ مبارک میں اس کا بھی روزہ دار کو خوب موقع میسر رہتا ہے کہ وہ فرائض کے علاوہ تراویح کا خو ب اہتمام سے ادا کرتا ہے تو اسمیں فرائض کا شوق اور حرص پیدا ہوتی ہے۔ یہی صفت اقامت صلوٰۃ ہے، پھر تیسری صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ جناب نبی کریم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ رمضان المبارک میں تیز وتند ہوا کی مانند خرچ کرتے۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی اور ماقبل کے ادوار میں بھی خیر القرون سے لیکر آج تک، امت اللہ کی راہ میں مال وجان کو خرچ کرنے کی عادی رہی ہے۔
ماہ رمضان میں وہ نبی کریم کی اقتداء میں خوب سبقت کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ الغرض تمام صفات تقوی ماہ صیام میں بندوں مین خوب ابھرتی ہیں ۔ان کا داعیہ اس مبارک موسم میں فطری طور پر پیدا ہوتا ہے، یہی دراصل مقصود ربانی ہے۔ رمضان مبارک اور قرآن کریم کے باہمی ربط کے بیان کا کہ اہل ایمان میںاہل تقویٰ کی صفات اجاگر ہوں ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔ باری تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں ہمیں تقویٰ کے زیور سے آراستہ فرمادیں، تقویٰ کی دولت سے مالا مال کردیں، او رہمارا روزہ ہمیںاللہ کے ہاں زیادہ عزت والا، زیادہ تقویٰ والا بنا دے کہ قرآن اور رمضان دونوںہمارے سفارشی بن جائیں ۔(آمین)