Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چارج صحیح فریم ہوا نہ نیب کو شواہد کا پتا تھا، جسٹس عامر فاروق

وکیل نے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا۔‘ (فوٹو: فیس بک ن لیگ)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’معذرت کے ساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں۔‘
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی جس میں نواز شریف اپنے وکلاء اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور دیگر کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے، جبکہ نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نعیم طارق، افضل قریشی، رافع مقصود اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں دلائل کا آغاز کیا تو عدالت نے استفسار کیا کہ ’یہ جو فیکٹ آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے ہیں؟ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تین حقائق ریفرنس سے پہلے جبکہ باقی بعد کے ہیں، 2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
وکیل کے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متعلق دلائل کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کا ٹی او آر کا سکوپ کیا تھا؟، جس پر وکیل نے کہا کہ 20 اپریل کو بینچ نے سوالات اٹھائے کہ ان کا جواب جے آئی ٹی دے گی۔
نواز شریف کے وکیل نے جے آئی ٹی کی تشکیل، ٹی او آرز اور جے آئی ٹی ارکان سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 20 اپریل کے آرڈر میں تشکیل اور اختیارات ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں؟ وکیل نے کہا کہ اسی آرڈر میں ٹی او آرز دیے گئے ہیں، 20 اپریل کے فیصلے میں جے آئی ٹی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا۔
 وکیل نے جے آئی ٹی کو دیے سوالات عدالت میں پڑھے اور کہا کہ اس معاملے پر مکمل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے، 5 مئی کو پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، دس والیم پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی،رپورٹ جمع ہونے کے بعد دلائل مانگے گئے، 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ دیا، اور 28 جولائی کو وزیر اعظم پاکستان کو نااہل قرار دیا گیا۔
 جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوایا گیا تھا یا نیب ریفرنس دائر کرنے کی پابند تھی؟ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی،عدالت نے فیصلے کے چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی، نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پھر نیب نے تفتیش کا کیوں کہا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ تو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کرچکی تھی۔

وکیل امجد پرویز نے کہ نواز شریف نے چارج فریم ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کیا (فوٹو: فیس بک ن لیگ)

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب دوران جرح تسلیم کرچکی ہے کہ ان کے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔
وکیل نے کہا کہ ’العزیزیہ میں 7 سال اور ایون فیلڈ میں 10 سال کی سزا ہوئی ہے، العزیزیہ ریفرنس میں نیب نے سزا بڑھانے کی اپیل دائر کررکھی ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں 19 اکتوبر کو فرد جرم عائد کیا گیا، والیم دس ایم ایل اے پر مشتمل تھا، ہم نے والیم دس مانگا تھا مگر ہمیں فراہم نہیں کیا گیاَ۔‘
وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں عائد کی گئی فرد جرم کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف نے چارج فریم ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کیا۔
وکیل کے مطابق احتساب عدالت نے فرد جرم کے بعد نیب سے شہادتیں طلب کر لیں، نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی۔ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔ نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کر دیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے کہیں اپنا مائنڈ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ کیا؟ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اگر نیب نے کوئی تفتیش خود سے کی ہوتی تو وہ کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوتے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کرنا تھا یا اپنا مائنڈ بھی استعمال کرنا تھا؟،آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’ہم اس ریفرنس میں پہلے بھی اپیلیں سن چکے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا نیب نے خود سے نواز شریف کو نوٹس جاری کیا تھا؟ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جی، نوٹس جاری کیا اور نواز شریف نے جواب جمع کرایا تھا، نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔
وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ’نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا۔ ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔‘
نیب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز بینفشل اونر ہیں؟،وکیل نے کہا کہ نیب نے یہ کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم اس ریفرنس میں پہلے بھی اپیلیں سن چکے ہیں، معذرت کے ساتھ اس ریفرنس میں چارج ہی درست طور پر فریم نہیں کیا گیا، عدالت کو خود پتہ نہیں تھا کہ مریم نواز کا کیس میں کردار ہی کیا ہے، کیا وہ مرکزی ملزمہ ہیں یا اعانتِ جرم کا الزام ہے؟‘
وکیل نے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا، میاں نواز شریف اور مریم نواز کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں موجود تھے، کلثوم نواز اُس وقت کینسر کی آخری سٹیج پر تھیں، احتساب عدالت کو فیصلے کی تاریخ تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی، ٹرائل کورٹ نے ہماری درخواست اُسی دن مسترد کر دی اور عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنا دی۔‘
وکیل کے دلائل جاری ہیں اور عدالت نے سماعت بدھ 29 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کے لیے حاضری سے استثنی مانگ لیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کر دیں۔‘

شیئر: