Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے سرفراز بنگلزئی کون؟

سرفراز بنگلزئی نے گلزار امام شمبے کی گرفتاری کے بعد بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی سربراہی سنبھالی تھی(فائل فوٹو: سکرین گریب)
بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے )کے سربراہ اور دہشت گردی کی کئی سنگین وارداتوں میں مطلوب سرفراز بنگلزئی نے 70 ساتھیوں سمیت حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
انہیں بدھ کو سول سیکریٹریٹ کوئٹہ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
سرفراز بنگلزئی نے نگراں وزیر داخلہ بلوچستان کیپٹن ریٹائرڈ زبیر جمالی اور نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ مسلح جدوجہد ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیمیں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی میں ملوث ہیں۔ انہیں بھارت اور افغانستان کی مدد حاصل ہے۔ تنظیمیں بھارت کے کہنے پر پیسے لے کر معصوم بلوچوں کا قتل کر رہی ہیں۔ 15 سال کی لڑائی میں پچھتاوے  کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

سرفراز بنگلزئی کون ہیں؟

سرفراز بنگلزئی نے گلزار امام شمبے کی گرفتاری کے بعد رواں سال اپریل میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی سربراہی سنبھالی تھی۔
وہ گزشتہ تقریباً 15 برسوں سے کوئٹہ، مستونگ اور اس کے اطراف میں ہونے والی عسکریت پسند کارروائیوں میں ملوث رہے۔ ان کی کارروائیوں میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ درجنوں افراد کی موت ہوئی۔
سرفراز بنگلزئی نے مئی 2015 مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر دو مسافر بسوں سے 20 پشتون مسافروں کو شناخت کے بعد گولیاں مار کر قتل کرنے کی ذمہ داری کالعدم مسلح تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان کی حیثیت سے قبول کی تھی۔
سرفراز بنگلزئی سے پہلے بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزارامام تھے جنہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے 2022 میں ترکی سے گرفتار کیا تھا۔
آئی ایس پی آر نے ان کی گرفتاری کی تصدیق اپریل 2023 میں کی اور مئی 2023 میں انہیں کوئٹہ کے اسی سرکاری ہال میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا جہاں آج سرفراز بنگلزئی نے نگراں صوبائی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔
گللزار امام کی گرفتاری سے پہلے سرفراز بنگلزئی تنظیم کے ڈپٹی کمانڈر کے ساتھ ساتھ ترجمان بھی تھے اور وہ مرید بلوچ کی عرفیت استعمال کرتے تھے۔

جب مہران مری نے سرفراز بنگلزئی کو تنظیم سے نکالا

بلوچستان کے ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے سرفراز بنگلزئی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) سمیت مختلف کالعدم مسلح تنظیموں میں شامل رہے اور اس دوران آپسی اختلافات اور تنازعات کا شکار بھی رہے۔
سرفراز بنگلزئی بی این اے سے قبل کالعدم یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے )سے وابستہ تھے۔ یہ تنظیم 2010 میں بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ حیربیار مری اور ان کے چھوٹے بھائی مہران مری کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔
دونوں تنظیموں کے درمیان تصادم کے واقعات بھی پیش آئے۔ 2015 میں ڈیرہ بگٹی ، کوہلو اور اطراف کے علاقوں میں بی ایل اے اور یو بی اے کی آپس کی جھڑپوں میں 20 سے زائد عسکریت پسند مارے جانے کی رپورٹس سامنے آئیں۔
2021میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد یو بی اے کے سربراہ مہران مری نے سرفراز بنگلزئی کو تنظیم سے نکال دیا تھا۔ اسی طرح گلزار امام شمبے 2018ء میں نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی سے اختلافات کے بعد بلوچ ری پبلکن سے اپنا دھڑا الگ کرلیا تھا۔
گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی نے یورپ میں مقیم اپنی تنظیموں کی قیادت سے اختلافات کے بعد جنوری 2022ء میں ملکر بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے نام سے نئی عسکریت پسند تنظیم کی بنیاد رکھی  جس نے اپنے قیام کے چند دن بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکا کرکے توجہ حاصل کی ۔اس دھماکے میں تین افراد ہلاک اور تیس کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔
بلوچ نیشنلسٹ آرمی 2018ء میں بننے والے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راج آجوئی سنگر(براس) کا بھی حصہ بن گئی۔
سرفراز بنگلزئی نے اپنی تنظیم کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری کے لئے براس میں شامل اتحادی مسلح تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا جس  کے بعد ان کے بی ایل اے اور بی ایل ایف کی قیادت کے ساتھ بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔

سرفراز بنگلزئی نے 18 سال تک سرکاری ملازمت کی

بدھ کو پریس کانفرنس کے آغاز میں سرفراز بنگلزئی نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے اسپلنجی سے ہے اور وہ 1991 سے 2009 تک محکمہ خوراک بلوچستان میں سرکاری ملازم رہے۔
سرفراز بنگلزئی نے کہا کہ 'سرکاری ملازمت کے دوران میں اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہا تھا، ذاتی گھر،جائیداد اور گاڑی تھی، بچے اچھے سکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ 2009 میں میں چند لوگوں کے بہکاوے میں آ کر اپنے ساتھیوں سمیت مسلح جدوجہد میں شامل ہوا۔ بلوچ حقوق کے نام پر اس لڑائی قریبی ساتھی، رشتہ دار اور دو بیٹے قربان کیے۔

سرفراز بنگلزئی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج 70 لوگ میرے ساتھ آئے ہیں (فوٹو: وزارت داخلہ بلوچستان)

سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیمیں بھتہ خوری، منشیات فروشی، منشیات لوٹنے، لوگوں کے اغوا برائے تاوان، بیرون ممالک کے فنڈز لینے میں ملوث رہیں ان کی قیادت بیرون اور ہمسائیہ ملک عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
’بلوچوں کا خون بلوچوں کے ہی ہاتھوں کیا جا رہا ہے۔ صرف 2014 میں ایک ضلع آواران میں ایک مسلح تنظیم نے 155 عام بلوچوں کا خون بہایا جن کا کوئی قصور نہیں تھا اور انہوں  نے صرف بھتہ دینے سے انکار کیا۔ پچھلے بیس سالوں میں ہزاروں ایسے ناحق بلوچوں کا قتل کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام سازشوں میں خاص کر انڈیا کا ہاتھ ہے۔ انڈیا مسلح تنظیموں کی فنڈنگ کررہا ہے۔ افغانستان میں انہیں تحفظ، تربیت اور سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ 
’یہ تمام چیزیں دیکھ کر ہم نے محسوس کیا کہ یہاں قوم یا اس سرزمین کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے لیے جنگ اور معصوم لوگوں کا قتل ہورہا ہے اس لیے اس تحریک سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ میں اور میرے ساتھ 70 ساتھی قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مسلح تنظیمیں صرف اور صرف بیرونی ایجنڈے پر کام کررہی ہیں۔ کور کمانڈر کوئٹہ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوا جس کا میں چشم دید گواہ ہوں لیکن براس نے انڈیا کے کہنے پر اس حادثے کی ذمہ داری قبول کی۔
سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ مسلح لڑائیوں میں مارے گئے بلوچ عسکریت پسندوں کے خاندان اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں خاص کر بیرون ملک موجود خاندان دربدر ہیں۔ میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپس آئیں ریاست بھی ان کے لیے راہ ہموار کرے۔
سابق عسکریت پسند کا کہنا تھا کہ اس تحریک میں خواتین کا استعمال کیا جا رہا ہے انہیں جنگ میں دھکیل کر نوجوانوں کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں۔

’بچوں کو تعلیم دلائیں بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں‘

سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ وہ والدین سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس ماحول سے دور رکھیں، انہیں بندوق کی بجائے تعلیم دلائیں۔ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں۔ 15 سال تحریک سے وابستہ رہنے کے بعد آج میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں طرف سے کافی نقصان کافی ہوا ہے میں ان تمام لوگوں سے معافی کا بھی طلبگار ہوں جن لوگوں کو ہماری وجہ سے تکلیفیں اور دکھ اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ریاست نے گلزار امام کو گرفتار کیا اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس سے میں متاثر ہوا اور قومی دھارے میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
ایک سوال پر سرفراز بنگلزئی نے کہا کہ موجودہ افغان حکومت بھی بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کی اسی طرح مدد کر رہی ہیں جس طرح پچھلی افغان حکومت کر رہی تھی۔ دونوں حکومتوں میں کوئی فرق نہیں۔ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب کی کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو کوئٹہ کے پہاڑوں میں نہیں بلکہ افغانستان میں بنی ہوئی تھی۔

'ریاست کو تسلیم کرنے والوں کو خوش آمدید کہیں گے '

نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان حکومت بلوچستان اور عوام کی طرف سے قومی دھارے میں شامل ہونے والے سرفراز بنگلزئی اور ان کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہماری دھرتی ماں ہے اور یہاں رہنے والے ہم سب ایک ہیں۔

سابق عسکریت پسند کا کہنا تھا کہ اس تحریک میں خواتین کا استعمال کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ ریاست نے مسلح لڑائی کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مضبوط اقدامات کئے ہیں تاکہ غلط فہمیاں اور دوریاں ختم ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ریاست نے ماں کا کردار ادا کیا ہے۔ دشمن کے مذموم مقاصد بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہماری سرزمین کے بیٹے کو بھارت کے مکروہ عزائم کا علم ہونے کے بعد قومی دھارے میں شامل ہونے کا سیدھا راستہ بھی مل گیا ہے۔ ریاست کی جانب سے انہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔
’ریاست پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے جو مسلح لوگ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں اور ریاست کی فراخدلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی دھارے میں واپس آنا چاہتے ہیں  انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘

مسلح تنظیموں کے لیے دھچکا

گلزار امام کی گرفتاری کے بعد سرفراز بنگلزئی کے ہتھیار ڈالنے کو بلوچ نیشنلسٹ آرمی سمیت بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے ۔
دو سربراہان کی گرفتار ی کے بعد بی این اے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے اور اس کے کئی اہم کمانڈرز یا تو پاکستانی فورسز کی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں یا پھر دوسری تنظیموں میں شامل ہو گئے ہیں۔
اس بات کا اعتراف سرفراز بنگلزئی نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے تنظیم بنائی تو ہمارے پاس اڑھائی تین سو لوگ تھے۔ ’گلزار امام کی گرفتاری کے بعد ہمارے 70 ساتھی (پاکستانی فورسز کے) ڈرون حملوں میں مارے گئے اور 70 لوگ آج میرے ساتھ آئے ہیں۔ تنظیم کے باقی لوگ بھی اسی انتظارمیں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ریاست انہیں خوش آمدید کہے۔

شیئر: