علم کا شوق، بلوچستان کے 46 سالہ باپ نے بیٹوں کے سکول میں داخلہ لے لیا
علم کا شوق، بلوچستان کے 46 سالہ باپ نے بیٹوں کے سکول میں داخلہ لے لیا
جمعہ 29 ستمبر 2023 6:06
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سکول کے منتظم عبدالقادر مندوخیل نے بتایا کہ عبدالرزاق نے تین دہائیوں کے وقفے کے بعد دوبارہ اپنی تعلیم شروع کی۔ فوٹو: اردو نیوز
عبدالرزاق کی عمر 46 برس ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے سکول گئے تو وہاں بچوں کو پڑھتا دیکھ کر ان کے دل میں اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ عبدالرزاق نے تین دہائیوں بعد اپنا تعلیمی سفر دوبارہ شروع کرتے ہوئے اسی سکول میں داخلہ لے لیا جہاں ان کے دو بیٹے بھی پڑھ رہے ہیں۔ اب باپ بیٹے اکٹھے ایک ہی تعلیمی ادارے آتے اور جاتے ہیں۔
عبدالرزاق کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان سے ہے۔ وہ 1992ء میں میٹرک کرنے کے بعد علاقے میں شروع ہونے والی قبائلی جنگ کی وجہ سے آگے نہ پڑھ سکے۔ اب انہوں نے 31 سال بعد گلستان کے ایک نجی سیکنڈری ہائی سکول میں فرسٹ ایئر یعنی گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا ہے۔
گلستان قبائلی دشمنیوں کے لحاظ سے بلوچستان کا سب سے بدنام علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک درجن سے زائد قبائل کی آپس میں دشمنیاں ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران درجنوں افراد کی موت ہو چکی ہے۔
عبدالرزاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ نوے کی دہائی کے شروع میں جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے تو علاقے میں قبائلی دشمنی کی بناء پر جنگ شروع ہو گئی۔ لڑائی کے دوران روزانہ فائرنگ ہوتی اور راکٹ کے گولے چلتے جس کی وجہ سے ان کا سکول ہفتے میں تین سے چار دن بند رہتا۔ بڑی مشکل سے میٹرک کیا۔
'یہ لڑائی کئی برس تک چلتی رہی جس کی وجہ سے گھر، سکول، بازار اور باغات سب اجڑ گئے۔ اور تعلیمی نظام درہم برہم ہو گیا۔ جس سکول سے پڑھا وہ آج بھی کھنڈر بنا ہواہے۔ اس قبائلی جنگ کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کو تعلیم چھوڑنا پڑی۔ میں بھی ان حالات کی وجہ سے میٹرک کے بعد آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکا جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہا۔'
انہوں نے بتایا کہ تعلیمی ادارے بند ہونے اور حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہماری دوسری نسل بھی تعلیم سے محروم رہی۔ سکول بند ہونے کی وجہ سے بچوں کو مدارس میں پڑھایا جہاں عصری تعلیم کا انتظام ہی نہیں۔
سکول کے زمانہ طالب علمی کو سنہرے دن قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا 'میری اب تک جتنی عمر گزری ہے میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کے لمحات وہی تھے جب سکول میں پڑھ رہا تھا۔ میں ہمیشہ اپنے اس سنہرے وقت کو یاد کرتا تھا اور میری خواہش تھی کہ یہ دن لوٹ کر آئیں۔'
عبدالرزاق کے بقول 31 سال بعد خواب پورا ہونے کی امید اس وقت ملی جب علاقے کے ایک قبائلی معتبر احمد خان نے ایک فلاحی تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں بچوں کو مفت پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے اپنے دو بچے کو وہیں داخل کرا دیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'ایک دن بچے کے بارے میں جاننے کے لیے سکول گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہاں فرسٹ ایئر کی کلاسز بھی شروع ہوئی ہیں۔ بچوں کو پڑھتا دیکھ کر میرے دل میں تعلیم کا شوق دوبارہ زندہ ہوا اور میں نے استاد سے ذکر کیا کہ میں کبھی کبھار لیکچر سننے آیا کروں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔'
عبدالرزاق کے ٹیچر اور احمد خان پبلک ایجوکیشنل سسٹم کے منتظم عبدالقادر مندوخیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'میں گیارہویں کلاس کو پڑھا رہا تھا عبدالرزاق اپنے بچے کے بارے میں بات کرنے سکول آئے تھے۔ میں کلاس چھوڑ کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے منع کیا اور کہا کہ آپ اپنی کلاس کو پڑھانا جاری رکھیں میں یہی قریب بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے لیکچر بھی سن لیتا ہوں۔'
عبدالقادر کے بقول 'اس دوران عبدالرزاق نے بہت دلچسپی سے لیکچر سنا اور کلاس ختم ہونے کے بعد گفتگو میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر وہ کبھی کبھی اس طرح لیکچر سننے آیا کریں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ہم نے انکار نہیں کیا۔'
انہوں نے بتایا کہ مثبت جواب پر عبدالرزاق بہت خوش ہوئے اور باقاعدگی سے کلاس میں آنے لگے۔ ان کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے انہیں اسی کلاس میں باقاعدہ داخلہ دے دیا۔ اب وہ گزشتہ دو مہینوں سے باقاعدگی سے پڑھ رہے ہیں۔
عبدالرزاق کا ایک بیٹا چوتھی جماعت اور دوسرا بیٹا چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔ اس تعلیمی ادارے کے پرائمری، مڈل، ہائی اور سیکنڈری سیکشن ایک ہی چا ر دیواری کے اندر قائم ہیں اس لیے اب وہ دونوں بیٹوں کے ساتھ اکٹھے آتے اور جاتے ہیں۔
عبدالرزاق نے بتایا کہ ’علاقے کے لوگ حتیٰ کہ گھر کے بعض افراد بھی میری مخالفت کر رہے ہیں اور بعض لوگ تو مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ بڑھاپے میں دوبارہ سکول کالج جانا شروع کر دیا ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے میں دو ماہ تک چھپ کر آتا جاتا تھا لیکن پھر میں نے سوچا کہ کوئی برا کام یا جرم تو نہیں کر رہا۔ اب میں لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا انہیں نظر انداز کر کے بچوں کے ہمراہ آتا اور جاتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے ہمارے علاقے میں منشیات کا استعمال اور فروخت عام ہے لیکن لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں تعلیم عام ہو تاکہ لوگوں کے ذہن تبدیل ہوں۔ انہیں اچھے اور برے کی سمجھ آ جائے۔‘
عبدالرزاق کے مطابق تعلیم کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں۔ قوی جذبہ اور مضبوط عزم سے انسان دنیا کا ہر مشکل کام کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فرسٹ ایئر میں داخلہ ملنے پر انہیں دوبارہ ویسی ہی خوشی محسوس ہو رہی ہے جیسے وہ پہلی دفعہ پڑھ رہے تھے۔ 'داخلہ لینے کے بعد سے گزشتہ دو ماہ میں کوئی چھٹی نہیں کی۔ گھر اور کاروبار کی ذمہ داری ہونے کے باوجود میں نے پہلی ترجیح اپنی تعلیم کو دی ہے۔'
عبدالرزاق گزشتہ 21 برس سے درزی اور کشیدہ کاری کا کام کر رہے ہیں اور ان کی گلستان میں دکان ہے۔ فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے سے پہلے وہ صبح سے شام تک اپنی دکان میں کام کرتے تھے۔ اب وہ صبح دکان بند رکھتے ہیں اور پانچ گھنٹے کی کلاسز لینے کے بعد شا م کو آ کر دکان سنبھالتے ہیں اورسہ پہر اور رات کو اپنی پڑھائی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے بچو ں کو کمپیوٹر لے کر دیا۔ ’یو ٹیوب کی مدد سے بڑے بیٹے کو موبائل سافٹ ویئر سکھایا آج وہ اچھا کما رہا ہے اور میرا ہاتھ بٹا رہا ہے۔‘
عبدالرزاق نے پری میڈیکل کا انتخاب کیا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے ڈاکٹر بنیں اور علاقے کے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔
ٹیچر عبدالقادر مندوخیل کہتے ہیں کہ ’ہماری پوری کوشش ہے کہ ہمارے اس منفرد طالب علم کا خواب پورا ہو اور وہ پورے علاقے کے لیے ایک کامیاب مثال بنے۔‘
سکول منتظم کے مطابق اساتذہ اور طلبہ دونوں عبدالرزاق کی تعلیم سے لگن، جذبے اور عزم سے متاثر ہیں۔ ان کے ذریعے علاقے کے لوگوں کو تعلیم کی قدر و اہمیت کے حوالے سے ایک اچھا پیغام گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلستان میں اس سکول کو تین سال قبل علاقے کے قبائلی معتبر احمد خان نے قائم کیا اب یہاں 850 لڑکے لڑکیاں مفت پڑھتے ہیں اور انہیں کتب، یونیفارم اور دیگر ضرورت کا سامان بھی مفت ملتا ہے۔ اس ادارے کے قیام سے علاقے میں تعلیم کو فروغ ملا ہے۔
عبدالرزاق ٹوپی، پگڑی اور روایتی لباس پہنے کلاس میں آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اساتذہ جانتے ہیں کہ یونیفارم پہننے کی صورت میں ان کے لیے مزید مشکلات کھڑی کی جائیں گی اس لیے انہوں نے اس سلسلے میں خصوصی رعایت دے رکھی ہے۔
سکول کے منتظم عبدالقادر مندوخیل نے بتایا کہ عبدالرزاق نے تین دہائیوں کے وقفے کے بعد دوبارہ اپنی تعلیم شروع کی ہے ’لیکن ان کا پڑھنے کا جذبہ کسی طور باقی طلبہ سے کم نظر نہیں آتا بلکہ وہ ان سے زیادہ محنت اور لگن سے پڑھتے ہیں۔ وقت کی پابندی کرتے ہیں کبھی کلاس سے غیر حاضر نہیں رہے، اسائنمنٹ ہمیشہ وقت پر مکمل کرتے ہیں اور ٹیسٹ کے لیے بھی پوری تیاری کرکے آتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ باقی تمام طلبہ اور سکول کے زیادہ تر اساتذہ عمر میں عبدالرزاق سے چھوٹے ہیں کئی اساتذہ تو ان کے بچوں کی عمر کے ہیں لیکن انہوں نے اپنے رویے سے عمر کی تفریق ختم کر دی ہے۔ ان کا رویہ بالکل عام طلبہ کی طرح ہے اسی وجہ سے اساتذہ کو بھی انہیں پڑھاتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔
عبدالرزاق نے بتایا کہ ’مجھے مطالعہ کا شوق ہے میں مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ فرانسیسی مصنف ڈاکٹر موریس بوکائلے سے متاثر ہوا جنہوں نے قرآن کو سمجھنے کے لیے پچاس سال کی عمر میں عربی زبان سیکھی اور پھر قرآن پر تحقیق کرکے کتاب بھی لکھی۔ اس سے مجھے حوصلہ ملا کہ اگر انسان سیکھنا چاہیے تو عمر کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔‘
ادارہ شماریات کے پی ایس ایل ایم سروے 2018-19 کے مطابق بالغ خواندگی کی شرح پاکستان میں سب سے کم 47 فیصد بلوچستان میں ہے۔ صوبے میں صرف 31 فیصد لوگ ہی میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔پاکستان میں سکولوں سے باہر طلبہ کی شرح بھی سب سے زیادہ بلوچستان میں 54 فیصد ہے۔
عبدالرزاق نے کہا کہ وہ والدین کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں۔ نوجوانوں کو بھی یہی پیغام ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع کئے بغیر اعلیٰ تعلیم کے حصول پر توجہ دیں۔ تعلیم کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔
ان کے بقول علم کا مقصد صرف منافع کا حصول نہیں۔ علم اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے اگر روشنی نہ ہو تو اندھیرے میں رکاوٹوں اور کانٹوں بھرے راستوں پر چلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں اندھیرے اور کانٹے زیادہ ہیں۔