انڈیا میں انتخابات سے قبل ’گاؤ رکھشک‘ اپنی سیاسی طاقت کیسے بڑھا رہے ہیں؟
انڈیا میں انتخابات سے قبل ’گاؤ رکھشک‘ اپنی سیاسی طاقت کیسے بڑھا رہے ہیں؟
جمعہ 29 دسمبر 2023 17:39
وشنو داباد اب انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ میں بی جے پی کی اتحادی جماعت کے لیے کل وقتی مہم چلا رہے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں دائیں بازو کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (پی جے پی) کی حکومت کے قیام کے بعد سے مختلف ریاستوں میں سخت گیر دائیں بازو کے سیاست دانوں اور کارکنوں نے اہم عہدے حاصل کیے ہیں۔
وشنو داباد بھی ایسے ہی طاقتور مقامی سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جو غربت سے طاقتور سیاسی عہدے تک اپنی رسائی کی وجہ گائے کو قرار دیتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 30 سالہ وشنو داباد ان متعدد گاؤ رکھشکوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کرنے والے قوانین کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کا بھرپور استعمال کیا۔
حالیہ برسوں میں انڈیا میں گائے کا تحفظ کرنے والے متعدد افراد پر قانون سے ماورا اور پرتشدد اقدامات میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر ان اقدامات کو ’ہندو مذہب کا دفاع‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
روئٹرز نے 90 کے لگ بھگ ایسے سخت گیر نظریات کے حامل کارکنوں، بی جے پی کے رہنماؤں اور چند دیگر سیاست دانوں کے انٹرویو کیے ہیں جن کے مطابق ان گاؤ رکھشکوں کی بڑی تعداد اپنے سخت گیر ایجنڈے کے لیے اپنی طاقت کو مزید سیاسی رسوخ کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
انڈین سیاست دانوں نے یہ بھی بتایا کہ گائے کا تحفظ کرنے والے کارکنوں نے اس جانور کی مبینہ سمگلنگ کے خلاف لوگوں کی بڑی تعداد کو متحرک کیا اور اب اس مقبولیت کو وہ سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اس وقت حکمراں جماعت بی جے پی کی اتحادی دائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ یہ کارکن 2024 کے عام انتخابات کے لیے مہم چلانے میں مصروف ہیں۔
روئٹرز سے گفتگو کرنے والے 41 گاؤ رکھشک ایسے ہیں جو گزشتہ چھ برسوں میں گاؤں کت سرپنچ، ٹاؤن کونسل ممبر اور مقامی رکنِ قانون ساز اسمبلی جیسے عہدوں کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ان عہدوں کے ذریعے وہ اس وقت دسیوں ہزار افراد پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے دیگر 12 گاؤ رکھشکوں نے بتایا کہ وہ مقامی عہدوں کے لیے اپنے خاندان کے افراد کی مہم چلا رہے ہیں۔
وشنو داباد جنہوں نے 2014 میں گاؤ رکھشک فورس بنائی تھی، وہ 2016 میں گاؤں کے سرپنچ منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میری کامیابی اور میرا اس مقام پر ہونا، جو کچھ بھی آپ دیکھ رہے ہیں یہ مجھ پر گائے کی مہربانی ہے۔‘
وشنو داباد اب انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ میں بی جے پی کی اتحادی جماعت کے لیے کل وقتی مہم چلا رہے ہیں اور وہ اس وقت اعلیٰ عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
ہندو مذمب کی قدیم تعلیمات میں گائے کو خوراک فراہم کرنے صلاحیت کی بنا پر دیوتا کا درجہ حاصل ہے لیکن انڈیا کی مسلمان، مسیحی اقلیتوں سمیت بعض ہندو بھی گائے کا گوشت خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔
روئٹرز نے گاؤ رکھشکوں کے کردار سے متعلق تبصرے کے لیے انڈین وزارت داخلہ سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انڈیا میں گائے کا تحفظ کرنے والے کارکنوں کی جانب سے گائے کی تجارت سے وابستہ افراد کو طاقت کے ذریعے روکنے کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں اور بعض ریاستوں میں گاؤ رکھشکوں کو پولیس کے ہمراہ گشت کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 تک گائے کے تحفظ کے نام پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں لگ بھگ 44 افراد قتل ہوئے جن میں سے 36 مسلمان تھے۔
’دی انڈیپنڈنٹ‘ کی ایک دستاویز کے مطابق انڈیا میں گائے کے تقدس کی بنیاد پر 206 پرتشدد واقعات ہوئے جن میں کم از کم 850 افراد نشانہ بنے۔ ان متاثرین کی اکثریت مسلمان تھی۔
انڈیا میں گاؤ رکھشکوں کو حالیہ برسوں میں ملنے پر طاقت پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے بی جے پی کے رہنماؤں پر اسلام مخالف تقاریر کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں لیکن انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ملک میں مذہبی بنیادوں پر کسی قسم کے امتیاز کی موجودگی کو مسترد کرتی ہے۔
نریندر مودی کے اقتدار میں آںے کے بعد گاؤ رکھشکوں کا پہلا نشانہ بننے والے ایک مسلمان شہری کے بھائی جان محمد نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گاؤ رکھشک بہت طاقتور افراد ہیں۔۔۔ وہ خوف کی علامت ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ صورت حال ابھی بدل سکے گی۔‘
جان محمد کے بھائی کے قتل میں ملوث ملزمان میں سے 17 کو ضمانت پر رہائی مل چکی ہے جبکہ ایک مشتبہ شخص کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس مقدمے میں ابھی تک مزید قانونی کارروائی التوا کا شکار ہے۔
بی جے پی کے دیہی ترقی کے وزیر گِیگی راج سنگھ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ہر اس شخص کا خیرمقدم کرتی ہے جو ‘صحیح معنوں میں گائے کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔‘
انہوں نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جو بھی گاؤ ماتا کا تحفظ کرے، اس عزت دینی چاہیے اور اس کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے۔‘