انتخابات 2024: ڈیجیٹل میڈیا کس طرح انتخابی مہم پراثر اندازہو رہا ہے؟
انتخابات 2024: ڈیجیٹل میڈیا کس طرح انتخابی مہم پراثر اندازہو رہا ہے؟
اتوار 31 دسمبر 2023 16:16
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پی ٹی آئی کے علاوہ اب دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا کی افادیت کو سمجھ لیا ہے۔ (فوٹو: فری پک)
پاکستان میں اگلے برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج گیا ہے اور اس حوالے سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
سیاسی جماعتیں انتخابی اکھاڑے میں اترنے کے لیے تیار ہیں تاہم اس بار سیاسی سرگرمیوں میں ماضی کے برعکس نئے پہلو بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پہلے صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہی سوشل میڈیا پر متحرک نظر آتی تھی لیکن اب دیگر جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا سمیت ڈیجیٹل میڈیا کی افادیت کو سمجھ لیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے انتخابات کے لیے منشور کی تیاری میں عوام کی تجاویز شامل کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ توئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ مسلم لیگ ن عام انتخابات 2024 کے لیے منشور تیار کر رہی ہے جس کا مقصد مختلف شعبوں میں بنیادی مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے قابل عمل حل تجویز کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’میں اندرون و بیرون ملک رہنے والے تمام پاکستانیوں کو دعوت دیتا ہوں کہhttp://pmln2024.comکا وزٹ کریں اور اپنی قیمتی و قابل عمل تجاویز سے اس مقصد کے حصول اور ایک نتیجہ خیز منشور کی تیاری میں ہماری مدد کریں جو پاکستان کو آگے لے جانے میں ہمارا مدد گار بنے۔‘
PMLN is preparing its manifesto for General Elections 2024 with the objective of identifying Pakistan’s main issues across various sectors and areas, and proposing implementable solutions. We would like to invite suggestions and proposals from you, the people of Pakistan and… pic.twitter.com/TF7wizmuwd
مسلم لیگ ن نے اس ویب سائٹ پر بظاہر پارٹی نعرہ ’ہم ہیں تیار‘ بھی درج کر رکھا ہے۔ سادہ سی ویب سائٹ پر پارٹی منشور کے نکات بتائے گئے ہیں جبکہ ایک خانہ عوامی تجاویز کے لیے متعین ہے۔
منشور میں پارٹی نے معیشت، توانائی، تعلیم، صحت، کھیل، زراعت، بیرونی تعلقات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انسانی حقوق، آئین کی بالادستی اور قدرتی وسائل سمیت کئی نکات درج کیے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ منشور کے ابتدائی ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد تجاویز بھی دیں تاکہ مزید بہتری لائی جا سکے۔
کئی حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ ن کے اس اقدام کو اس لیے سراہا رہا ہے کہ یہ عوام کو پارٹی کی حدود میں فیصلہ سازی میں شامل کرنے کی جانب ایک قدم ہے۔
صحافی سید بدر سعید پاکستان میں سیاسی مہم کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے منشور کی تیاری کے لیے عوامی رائے لینے اور ویب سائٹ بنانے کا اقدام بہتر تو ہے لیکن اس کی افادیت پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ ویب سائٹ پر لوگوں کی رائے لے رہی ہے یہ ایک بہتر اقدام ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ ویب سائٹ کس حد تک لوگوں تک پہنچتی ہے۔ پارٹی اس کی تشہیر پر کتنی توجہ دیتی ہے، کیونکہ اس کی کامیابی کا معیار تو تب ہی معلوم ہو سکے گا جب زیادہ سے زیادہ لوگ اس تک رسائی حاصل کر کے اپنا فیڈ بیک دیں گے۔‘
سید بدر سعید کا کہنا تھا کہ ’روٹی کپڑا اور مکان جیسے نعرے اور منشور گزرے دور کی باتیں ہیں، منشور عوام طے کرتے ہیں۔ پہلے تو لوگوں کے مسائل اعلٰی قیادت تک نہیں پہنچتے تھے، اب ن لیگ اپنا منشور اس لیے نہیں دے رہی کہ وہ عوام کی رائے کا انتظار کر رہی ہے، اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘
ماضی میں انتخابی سرگرمیوں کے لیے مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک ہاتھ سے بینرز بنائے جاتے تھے اور سیاسی رہنماؤں کی تصویروں کو دیواروں پر نقش کیا جاتا تھا لیکن سوشل میڈیا کے آنے سے اس میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’ماضی میں تو بالکل روایتی طریقے استعمال ہوتے تھے چونکہ اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال اتنا زیادہ نہیں تھا اس لیے الیکشن دفاتر ہوتے تھے، پریس ریلیز ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کارنر میٹنگز اور کارکنوں سے ون ٹو ون ملاقاتوں پہ توجہ دی جاتی تھی جلسے کیے جاتے تھے، یعنی ایک تہوار سا ہوتا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کے آنے سے پوسٹرز اور بینرز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے ہاتھ سے لکھے ہوئے بینر ہوتے تھے اب آپ کو کہیں بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے بینرز نظر نہیں آتے، گویا وہ بالکل ہی غائب ہو گئے ہیں کیونکہ فلیکس اور کمپیوٹرائزڈ فلیکس مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔ اس لیے اب سوشل میڈیا کے آنے سے انتخابی سرگرمیاں جدت اختیار کر رہی ہیں۔‘
حالیہ انتخابی منظر نامے پر پی ٹی آئی کو ایک طرف تو مسائل کا سامنا ہے لیکن دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس کی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ایکس پر ایک اکاؤنٹ ’پی ٹی آئی پالیٹکس اپڈیٹس‘ کے ذریعے پاکستان بھر کے حلقوں میں پارٹی عہدیداران اور امیدواروں کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلسل معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
کس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کس طرح ورکرز کنونشنز منعقد کر رہے ہیں اور کس طرح لوگوں کو ووٹ کے لیے بلے کے انتخاب پر مائل کر رہے ہیں، اس حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر تفصیلات دی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے سید بدر سعید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ’مشکل وقت میں اپنے لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے متحرک کرنا خوش آئند ہے۔ مستقبل میں انتخابی مہم سے لے کر منشور کی تیاری تک ہر چیز صرف سوشل میڈیا پر ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا پر سیاست کا سہرا پی ٹی آئی کے سر پہ باندھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سنہ 2018 کا پورا الیکشن ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے لڑا اور بہت اچھا پرفارم کیا۔ اس کے بعد سے باقی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ نظر آنے لگا اس لیے آج تمام سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر اپنے لوگوں کو متحرک کر رہی ہیں۔ اس طرح سیاسی جماعتیں زیادہ اخراجات سے بھی بچ رہی ہیں۔‘
پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی تمام سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس کے ذریعے اپنی اپنی مہم چلا رہی ہیں تاہم ان میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے ان اقدامات کو نمایاں طور پر سراہا جا رہا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ترانے اور پرکشش پوسٹرز بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے سیاسی جماعتیں لوگوں کو تحریک دے رہی ہیں۔