آج کے دور میں پول پارٹیوں جیسے پروگراموں سے بچوں کی کون سی تربیت ہو رہی ہے؟
* * * حنا سہیل ۔ ریاض* * *
روزہ فرض ہونے کی عمر سے پہلے ہی بچوں میں رمضان کریم کے روزے رکھنے کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ہمارے اجداد نے ’’روزہ کشائی‘‘ جیسی تقریبات کا انعقاد کرنا شروع کیا تھا۔ وہ بچے کو روزہ رکھواتے اور پھر افطار کے وقت انتہائی دھوم دھام کی جاتی۔ یہی نہیں بلکہ ننھے صائم کو انعامات اور تحائف بھی دیئے جاتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بچہ ماں سے ضد کرنے لگتا ہے کہ’’امی! سحری میں مجھے بھی اٹھانا، میں بھی روزہ رکھوں گا۔
ہم اپنے ماضی کے جھروکے میں جھانکیں تو کتنے ہی قیمتی اطوار ملتے ہیں جن میں مشترکہ خاندانی نظام میں دادی اماں، پھوپھی، چچی وغیرہ بچوں کو محبت سے یا ڈانٹ کر تمیز سکھاتی تھیں کہ کیسے بیٹھنا ہے، ہاتھ ہلا ہلا کر باتیں نہیں کرنی چاہئیں، آنکھیں ادھر اُدھر گھما کر باتیں کرنے سے بھی منع کیاجاتا تھااور کہاجاتا تھا کہ یہ کونسا انداز ہے؟ غرض جس بڑے نے کہیں کچھ دیکھا ،وہیں ٹوک دیا۔ زیادہ زور سے ہنسی کی آواز نکل جاتی تو بھی ڈانٹ دیاجاتا تھا لیکن اس روک ٹوک کے نتیجے میں ا یک تمیز دار اور سلیقہ شعار نسل تیار ہوتی تھی۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ رمضان کریم کی آمد سے پہلے ہی استقبال کی ایسی تیاریاں کی جاتی تھیں جیسے مہمان خصوصی کی آمد آمد ہے۔ گھر کی مکمل صفائی، دیواریں ، کھڑکیاں ، فرش وغیرہ چمکا دیئے جاتے تھے۔ اسی طرح مختلف پکوان پہلے سے بناکر رکھ دیئے جاتے تھے تاکہ عین وقت پر مشکل نہ ہومثلاً رمضان کریم کیلئے شامی کباب، قیمہ بناکر فریزر میں رکھ دیا جاتا۔
سموسے اوربڑے بناکر اور چھولے اُبال کر رکھ لئے جاتے تھے تاکہ افطار و سحر کے پکوان تیار کرنے میں سہولت ہو اورعبادت کے لئے زیادہ وقت میسر آ سکے ۔ ان سب یادوں میں ایک حسین یاد روزہ کشائی بھی تھی۔ جب سحری کا ٹائم ہوتا تو بچوں میں تجسس ہوتا کہ گھر کے سب بڑے، آدھی رات کو اٹھ کر کیا خاص کھانا کھاتے ہیں۔ پھر بچے شور کرتے تھے کہ ہم بھی سحری کریں گے، روزہ رکھیں گے۔ ہمیںاب تک یاد ہے کہ روزہ رکھوانے سے پہلے بچے کو پانچ وقت کی نماز کا پابند بنایا جاتا تھا۔ اذکار یاد کروائے جاتے تھے ، قرآن کریم کی تلاوت کا عادی بنایا جاتاتھا۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں نے زندگی میں پہلا روزہ رکھاتھا۔ چھوٹی پھوپھو رہنے آئی ہوئی تھیں۔ انہو ں نے مجھے بہت ساری دعائیں یاد کروائیں، اپنے ساتھ نماز کیلئے کھڑا کرتیں ، نماز پڑھواتیں۔
ذرا وقت ملتا تو قرآن کریم لیکر بیٹھ جاتیں۔ انہیں دیکھ کر میرا بھی قرآن کریم پڑھنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مجھے روزہ رکھوانے میں پھوپھو نے اہم کردار ادا کیا۔ جون کا مہینہ اورشدید گرمی تھی۔ اس کے باوجود روزہ رکھنے کا شوق ا یسا کہ نہ پوچھئے۔ پھوپھو نے سحری میں دہی زیادہ کھلایا تاکہ دن میں پیاس کم لگے۔ نماز پڑھی اور قرآن کریم پڑھ کر کہا کہ اب سو جاؤ۔ ظہر کے بعد جب پھوپھو سے پوچھا کہ کتنا ٹائم ہے افطار میں تو وہ ہنسنے لگیں کہ ابھی سے ہمت ہار دی۔ابھی بہت وقت باقی ہے ۔ جاؤ، اللہ کریم کا ذکر کرو، دعائیں پڑھو،وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ امی، خالہ، پھوپھو مزے مزے کے پکوان بنا رہی تھیں، ہم سوچ رہے تھے کہ جب روزہ افطار کریں گے توگھر آنے والے مہمان ہمارے لئے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرورلائیں گے۔ خالہ جان نے میرے ہاتھوں پیروں میں مہندی لگادی تھی ۔ شام کو سارے مہمان آئے، لمبا دسترخوان سجایاگیا۔ ہمیں گوٹہ کناری والے کپڑے پہنائے گئے اورپھر ہار پہناکر بٹھادیاگیا۔
سب گھر والے ہماری خاطر داری میں لگے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم سارا دسترخوان افطار میں اکیلے ہی ختم کرلیں گے۔ اذان کا وقت ہوا، دعا پڑھوائی گئی اور افطار کے ساتھ مبارکباد کی آوازوں نے ہماری ساری بھوک پیاس یکدم ختم کردی۔ ہم نے پہلے سال 7روزے رکھے تھے، اب تک یاد ہے۔ بچوں کو روزہ رکھوانے کا سلسلہ آج کل تو فیشن بن گیا ہے۔کچھ دن پہلے ایک سہیلی نے اپنی بیٹی کے پہلے روزے پرعالیشان ہوٹل میں دعوتِ افطا ردی ۔گھر میں کوئی رونق ہی نہیں تھی، سب کام ہوٹل والوں نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی پڑوسن سے پوچھا کہ وہ کیا تحفہ دیں گی تو انہوں نے کہا کہ بھئی بڑے لوگ ہیں، انہیں ہمارے تحفے کیا پسند آئیں گے؟ میں بعد میں جاکر مبارکباد دے دوںگی اور چاکلیٹ کا ڈبہ لے جاؤں گی۔ہمیں تو بہرحال جانا تھا دعوت میں، ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ کوئی ہمیں بلائے اور ہم نہ جائیں ۔ بچی کیلئے خوبصورت سی گھڑی خریدی تاکہ وہ وقت کی اہمیت کا اندازہ کرسکے ۔ دعوت افطار میں پہنچے تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پہلا روزہ کس بچی کا ہے اور وہ بچی کہاں ہے؟ نہ ہار پہنچے ، نہ خالہ، پھوپھو کی چہل پہل تھی۔
دادی ایک کونے میں بیٹھی تھیں اور خالہ الگ کونے میں۔سہیلی نے استقبال کیا، بڑے تپاک سے ملیں۔بچی کوتحفہ دیا، جسے بڑی بیزاری سے ایک طرف ڈال دیا گیا۔ افطار کے وقت کوئی بڑا بچی کے پاس موجودنہیں تھا جو اسے دعا پڑھاتا۔ اسکی سہیلیاں ہی اس کے اطراف تھیں۔ اس دور میں رشتوں سے دوری نے تقریبات کا حُسن بھی کم کردیا ہے۔والدین نے بچوں کوموقع بے موقع تحفے دے دے کر تحائف کی اہمیت ہی ختم کردی۔ بچو ں کو نماز ، روزہ اور دیگر عبادات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں رہا۔ قرآن کریم پڑھنے کا شوق نہیں۔ والدین یہ کہہ کر کہ ابھی چھوٹے ہیں، نظر انداز کردیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہی بچے آگے جاکر اچھے یا بُرے انسان بنیں گے۔ اپنے بچوں کی بھی ویسی تربیت کریں جس سے ان میں دینی شعور اجاگر ہو اور وہ بیزاری سے نہیں بلکہ ذوق وشوق سے اور لگن سے عبادات کر سکیں۔ بچوں کی تربیت کیلئے تقریبات کے انعقاد سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ان تقریبات میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بچوں کو دینی شعور عطا کرنا والدین کا ہی فرض ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں آج کل پول پارٹی ، ڈے اسپینڈنگ اورمختلف بہانوں سے ایک دوسرے کے گھر جانے کے پروگراموں سے ہم بچوں کو آخر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، ان کی کون سی اخلاقی تربیت ہو رہی ہے؟ایسی پارٹیوں اور پروگراموں سے بچے اپنی روایات سے دور اور مغربی روایات کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اسلامی روایات و اقدار کواپنائیں اور بچوں کو بتائیں کہ ہماری اسلامی روایات کتنی پاکیزہ اور خوبصورت ہیں جن کے مطابق عمل کرکے ہم نہ صرف دنیا کی زندگی سنوار سکتے ہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی میں بھی سرخرو ہوسکتے ہیں۔