انکاؤنٹر سپیشلسٹ پولیس افسر چوہدری اسلم ’کسی کی نظر میں ہیرو کسی کے لیے ولن‘
انکاؤنٹر سپیشلسٹ پولیس افسر چوہدری اسلم ’کسی کی نظر میں ہیرو کسی کے لیے ولن‘
منگل 9 جنوری 2024 6:44
زین علی -اردو نیوز، کراچی
چوہدری اسلم کے ایک ہاتھ میں 9 ایم ایم پستول اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا (فوٹو: ایس ایم وی پی)
جنوری کی سرد اور کہر آلود رات ختم ہوئی تو صبح کی روپہلی کرنیں کمرے کی کھڑکی کی درزوں سے راستہ بناتی ہوئی رات کی ڈیوٹی پر مامور صحافیوں کا طواف کرنے لگیں، جنہیں محکمہ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سے ایک پیغام موصول ہوا۔
پیغام یہ تھا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کراچی کے علاقے مشرف کالونی میں پولیس اور دہشت گردوں کے مقابلے میں بہت سے دہشت گرد مارے گئے ہیں، اور انہیں سول ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
یہ خبر ملتے ہی میڈیا کی گاڑیوں نے سول ہسپتال کا رُخ کیا جہاں ہسپتال کے شبعہ حادثات میں پولیس کی تین موبائل وین اور ایک بکتر بند گاڑی سول ہسپتال کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔
پولیس موبائل وین سے ایک شخص کاٹن کے سفید شلوار قمیض میں باہر نکلا جس کے ایک ہاتھ میں 9 ایم ایم پستول اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا۔
وہ اپنے اردگرد ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالتا ہے۔ سگریٹ کو سلگاتا ہے اور طویل کش لیتے ہوئے دھواں منہ سے باہر نکال کر بھاری آواز میں سامنے کھڑے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’آپ اس شدید سردی میں بھی اتنی جلدی یہاں پہنچ گئے؟‘
اس کے رعب دار چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ’لگتا ہے ہماری طرح آپ لوگوں کو بھی راتوں کو جاگنے کی عادت ہو گئی ہے۔‘
یہ کراچی کے مشہور انکاؤنٹر سپیشلسٹ پولیس افسر چوہدری محمد اسلم تھے جنہیں لوگ چوہدری اسلم کے نام سے جانتے ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک سندھ پولیس میں فرائض انجام دیے۔ وہ کراچی پولیس کے ایک دبنگ افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔
آٹھ اور نو جنوری 2014 کی درمیانی شب پیش آنے والے انکاؤنٹر پر پولیس ہیڈکوارٹر کے گارڈن میں ان سے بات ہوئی۔
چوہدری اسلم نے صبح کی ملگجی روشنی میں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور بارود دکھاتے ہوئے اپنی کارروائی کے بارے میں آگاہی فراہم کی۔
انہوں نے پریس کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں کے ساتھ چند منٹ بات چیت کی اور اپنے مخصوص انداز میں ایک بار پھر کہا کہ ’انہیں چھوڑوں گا نہیں۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو چوہدری اسلم اکثر کہا کرتے تھے۔
یہ چوہدری اسلم کی زندگی کا آخری انکاؤنٹر اور آخری پریس بریفنگ تھی۔
9 جنوری 2014 کو جمعرات کے روز چوہدری اسلم کو حسن سکوائر لیاری ایکسپریس وے کے قریب ایک بم دھماکے میں ڈرائیور اور محافظ سمیت انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
چوہدری اسلم کے ساتھ اور ان کے ماتحت کام کرنے والے پولیس افسر، اہلکار اور صحافی آج بھی انہیں مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے یاد کرتے ہیں۔
ایس ایس پی عرفان بہادر کے مطابق چوہدری اسلم ایک بہادر اور نڈر پولیس افسر تھے۔ وہ شہر کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے تھے۔
عرفان بہادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چوہدری اسلم کے ساتھ گزرے اپنے وقت کو اپنی زندگی کا بہترین وقت قرار دیا اور کہا کہ ’جرائم پیشہ افراد کے لیے خوف کی علامت سمجھے جانے والے چوہدری اسلم ہمدرد طبعیت کے مالک تھے۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی مکمل خبر گیری رکھا کرتے، آپریشنز اور دوران ملازمت زخمی یا شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لیے ہمہ وقت سرگرداں رہتے تھے۔‘
انہوں نے چوہدری اسلم کے کام کرنے کے انداز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں پولیس کے محکمے سے متعلق دو طرح کی آرا پائی جاتی ہیں۔ شکایت کرنے والے کی اور دوسری رائے اس کی ہوگی جس کے خلاف شکایت ہوگی۔ ایک پولیس کو اچھا کہے گا اور دوسرا برا کہے گا۔‘
چوہدری اسلم سمیت دیگر پولیس افسروں کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں۔ چوہدری اسلم نے جن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کی وہ انہیں کبھی اچھا نہیں کہیں گے۔ تاہم انہوں نے عوام کے لیے ہر خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کام کیا۔
اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ شہر میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنے پر شہری ان کی تعریف بھی کریں گے تو یہ دونوں طرح کی آرا پولیس افسروں کے بارے میں عموماً پائی جاتی ہیں۔
سندھ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خدمات انجام دینے والے عمر شاہد حامد کی رائے میں چوہدری اسلم وہ پولیس افسر تھے جنہوں نے ایک نہیں کئی محاذوں پر ایک ساتھ کام کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’کراچی کے باسی شہر میں امن و امان کی خراب صورتحال کو کبھی نہیں بھول سکتے جب شہر میں ایک دن میں کئی کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ شہر میں بسنے والے خوف کی کیفیت میں اپنی زندگی گزارتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چوہدری اسلم نے جہاں 90 کی دہائی میں کراچی آپریشن میں نمایاں کارکردگی دکھائی وہیں جہادیوں کے خلاف بھی کھل کر سامنے آئے، بہادری کی غیرمعمولی مثال قائم کی اور پولیس کے افسروں و اہلکاروں کا حوصلہ بڑھایا۔‘
’شہر میں جب گینگ وار نے سر اٹھایا تو سب نے دیکھا کہ یہ چوہدری اسلم ہی تھے جنہوں نے اس آپریشن کو لیڈ کیا، اور کئی روز تک لیاری میں خود کھڑے رہ کر آپریشن کیا۔‘
سندھ پولیس کے کئی افسر و اہلکار ایسے تھے جو صرف کراچی آپریشن یا جہادیوں یا پھر گینگ وار میں ہی سرگرم نظر آئے۔
چوہدری اسلم وہ واحد پولیس افسر تھے جنہوں نے ان تینوں محاذوں پر ایک ساتھ کام کیا۔ اس لیے ان کی دشمنی بھی ایک نہیں بلکہ بہت سے لوگوں سے تھی۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اے ایچ خانزادہ تین دہائیوں سے شہر میں کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کا شمار بلاشبہ ان صحافیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سندھ ریزرو پولیس کے ایگل سکوارڈ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر ( اے ایس آئی) چوہدری محمد اسلم کو ایس ایس پی چوہدری اسلم کے عہدے تک ترقی پاتے دیکھا ہے۔
انہوں نے کراچی کی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اپنے اخبار کے دفتر سے رات گئے واپس اپنے گھر فیڈرل بی ایریا پہنچے تو گھر کے باہر کچھ لوگ جمع تھے۔ قریب گیا تو دیکھا کہ علاقے کے بزرگ محمد رفیق صاحب دو خواتین اور بچوں کے ساتھ موجود ہیں۔ سلام دعا ہوئی ہی تھی کہ اچانک ساتھ کھڑی خاتون نے رونا شروع کردیا۔‘
’میں نے اور رفیق صاحب نے خاتون کو دلاسا دیتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرنے کو کہا، آواز میں کپکپاہٹ کے ساتھ خاتون نے بتانا شروع کیا کہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے جس کے تین بچے ہیں۔ وہ موٹر سائیکل میکنک ہے۔ کچھ دیر پہلے پولیس گھر آئی اور میرے بیٹے آصف کو اپنے ہمراہ لے گئی۔ پولیس سے استفسار کیا کہ میرے بیٹے کا کیا قصور ہے اور اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور جاتے ہوئے ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ گلبہار تھانے جا رہے ہیں۔‘
اے ایچ خانزادہ نے خاتون سے پوچھا کہ ’بیٹا کسی پارٹی میں ہے؟‘ خاتون نے اس کے کسی بھی پارٹی میں شامل ہونے سے انکار اور کہا کہ ’ہمارے لیے تو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے تو وہ کسی پارٹی میں کیا کام کرے گا؟‘
’ہم نے خاتون سے تفصیلات حاصل کرنے کے بعد گھر سے گلبہار تھانے کا رُخ کیا وہاں چوہدری اسلم سے ملاقات ہوئی اور خاتون نے اپنا مؤقف پیش کیا۔‘
چوہدری اسلم نے تھانے میں موجود ڈیوٹی افسر کو طلب کیا اور کارروائی کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں اور یہ کہہ کر خاتون کو دلاسا دیا کہ ’اماں تیرا بیٹا اگر کسی غلط معاملے میں شامل نہیں ہے تو گھر واپس آجائے گا۔ تو پریشان نہ ہو۔‘
’میں نے خاتون کو کمرے سے باہر بھیجتے ہوئے چوہدری اسلم سے اشارے سے پوچھا کہ معاملہ ہے کیا؟‘
چوہدری اسلم نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’اب تم خود یہاں آئے ہو تو کیا کِیا جا سکتا ہے۔ موصوف چائے پی نہیں رہے جس کا مطلب ہے کہ بندہ تو لے کر ہی جائے گا۔‘
اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ ’اس معاملے میں لوگ چوہدری اسلم سے میرے تعلق یا دوستی کو اچھا کہیں یا برا یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں کم و بیش دو درجن سے زائد بار بے قصور لوگوں کو مختلف پولیس والوں سے درخواست کرکے چھڑوایا ہے۔ لوگ اسی امید پر تو صحافیوں کے گھر آتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ کچھ لوگوں کی نظر میں چوہدری ولن ہے تو کچھ کی نگاہ میں ہیرو۔ ہم تو صحافی ہیں اس بارے میں ہماری اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔‘