Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ: سابق صدر پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار

17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ برقرا رکھا ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی لارجر بینچ نے خصوصی عدالت کے حکم کے خلاف پرویز مشرف کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کے سامنے دو سوالات تھے، پہلا سوال یہ کہ کیا کسی شخص کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپیل سنی جا سکتی ہے اور دوسرا سوال یہ کہ اگر سزائے موت برقرار رہتی ہے تو کیا مشرف کے قانونی ورثاء مرحوم  کو ملنے والی مراعات کے حقدار ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ ’متعدد بار کوشش کے باوجود بھی پرویز مشرف کے ورثاء سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ سزائے موت برقرار رکھیں۔‘
اس سے قبل اپنے دلائل میں پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف درخواست پر وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر کے اہل خانہ کو کیس کا علم ہے تاہم ان سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ نومبر سے ابھی تک 10 سے زائد مرتبہ رابطہ کیا ہے، کیس کے حق میں یا خلاف انہوں نے کوئی ہدایات نہیں دیں۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں واضح کیا کہ وہ پرویز مشرف کے اہل خانہ کی نمائندگی نہیں کر رہے۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست بھی ان کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

2016 میں پرویز مشرف علاج کی غرض سے دبئی جانے کے بعد واپس نہیں لوٹے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے، اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بھی ملوث تھے۔
سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف کو سنے بغیر ہی خصوصی عدالت نے سزا سنا دی تھی۔
سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا۔
نواز شریف کی آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 24 جون 2013 کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔
26  جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کے لیے خط لکھا۔ خط میں لکھا گیا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم تشکیل دے۔ وزیراعظم کے خط کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی تھی۔
16 نومبر کو ایف آئی اے نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور پھر 13 دسمبر 2013 کو انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔
 شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا۔
خصوصی عدالت کی تشکیل
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔
خصوصی عدالت نے پہلی بار سابق صدر کو 24 دسمبر 2013 کو طلب کیا۔

نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی۔ اس دوران پرویز مشرف نے جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس کے بعد 18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔ شہادتیں مکمل ہونے پر پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا۔
2  جنوری 2014 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے دل کے عارضے کی وجہ سے عدالت کے بجائے آرمڈ فورسسز انسٹیٹوٹ آف کارڈیولوجی (اے ایف آئی سی) پہنچا دیا گیا۔ عدالت نے طبی بنیادوں پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے۔
اے ایف آئی سی نے سات جنوری کو پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے دل کی تین شریانیں بند ہیں اور انہیں دیگر آٹھ بیماریاں لاحق ہیں۔
18 مارچ 2016 کو پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے لیکن وہ کبھی واپس نہ لوٹے۔
11 مئی 2016 کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔
سنگین غداری کیس میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ اس دوران 4 ججز تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

طویل بیماری کے بعد پرویز مشرف فروری 2023 میں دبئی میں انتقال کر گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

مشرف کو سزائے موت
17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔
انھیں دو ایک کے فرق سے سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے ہر جرم کے بدلے میں ایک بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے میں جسٹس سیٹھ وقار احمد کے پرویز مشرف کے فوت ہو جانے کی صورت میں ان کی لاش کو تین دن تک لاش کو ڈی چوک پر لٹکائے رکھنے کی رائے کی وجہ سے فیصلے کو خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

شیئر: