Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل (ر) پرویز مشرف کی تدفین، کئی دیرینہ ساتھی جنازے میں شریک نہ ہوئے

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے اولڈ ایئرپورٹ ٹرمینل ون کے باہر سخت سکیورٹی کے حصار میں ساتھیوں کے ساتھ کھڑا صحافی پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی میت کا انتظار کر رہا تھا۔
اولڈ ایئرپورٹ کا یہ ٹرمینل ون جنرل پرویز مشرف کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ان کی اس ٹرمینل سے آمد 1999 اور 2013 میں بھی ہوئی تھی۔
تاہم 1999 اور 2013 میں ان آمد سے 6 فروری 2023 کی آمد اس لیے مختلف ہے کہ پہلے جنرل پرویز مشرف ملک پر فوجی قبضے کے بعد بطور فوجی حکمران اور 2013 میں سیاسی اننگز شروع کرنے آئے تھے اور 6 فروری کو ان کی میت کو تدفین کے لیے لایا جا رہا تھا۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا پرانا حصہ اولڈ ٹرمینل ون کہلاتا ہے۔ پیر 6 فروری 2023 رات 9 بج کر 50 منٹ پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی میت متحدہ عرب امارات کے خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی لائی گئی۔ ان کی اہلیہ صہبا پرویز مشرف، بیٹی آئلہ مشرف اور بیٹے بلال مشرف سمیت ان کے قریبی ساتھی بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ سخت سکیورٹی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی میت کو کراچی ملیر چھاؤنی منتقل کیا گیا۔
تدفین کے روز طویل عرصے تک پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ان کے قریب رہنے والے کئی سیاسی رہنما ان کی نماز جنازہ میں آبدیدہ اور افسردہ نظر آئے۔ جن میں سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، فواد چوہدری، سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، امیر مقام اور بیریسٹر فروغ نسیم نمایاں تھے۔
جبکہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے کسی نامور رہنما نے سابق صدر کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی۔ اس کے علاوہ ماضی میں سابق صدر کے قریب رہنے والے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی سمیت کئی رہنما سابق صدر کی آخری سفر میں الودع کہنے نہیں آئے۔
اس کے علاوہ نماز جنازہ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، سابق آرمی چیفس جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور اشفاق پرویز کیانی، عاصم سلیم باجوہ اور ابتدائی دور کے رفیق میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی اور سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ 5 فروری 2023 کو متحدہ عرب امارات کے امیرکن ہسپتال میں سابق صدر پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف انتقال کر گئے تھے۔ وہ کافی عرصے سے علالت کے باعث دبئی میں مقیم تھے جہاں ان کا علاج جاری تھا۔
سینیئر صحافی رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ’سابق صدر پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو کراچی کے اولڈ ٹرمینل ون پر پہنچے تھے۔ اس وقت میں کوریج کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فوجی جوانوں کے جھرمٹ میں پرویز مشرف باوردی نمودار ہوئے اور سخت سکیورٹی میں ایئرپورٹ سے کور ہیڈ کوارٹرز روانہ ہوئے اور اسی روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اقتدار سنبھالنے کا اعلان کیا۔‘
’جنرل (ر) پرویز مشرف کی یوں تو اپنے دور اقتدار میں کئی بار اس ایئرپورٹ سے آمدورفت ہوئی، لیکن سال 2013 کے عام انتخابات سے قبل کراچی کے اسی ایئرپورٹ پر ان کی آمد ایک یارگار لمحہ تھا۔
’جنرل پرویز مشرف یہ سمجھتے تھے کہ ان کی کراچی آمد پر ان کا والہانہ استقبال ہوگا اور عام انتخابات میں انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوگی، لیکن صورت حال اس کے برعکس رہی اور ماضی میں ان کی بھرپور حمایت کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے کارکنان کے ہمراہ ان کا استقبال کرنے نہیں پہنچی۔‘

سابق فوجی حکمران کی میت کو ایمبولینس کے ذریعے جنازہ گاہ پہنچایا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’سخت سکیورٹی میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف روانہ ہوئے اور اگلے روز انہوں نے کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
7 فروری بروز منگل جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی نماز جنازہ ملیر کینٹ گیریژن پولو گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ اہل خانہ اور ان کے عزیزواقارب کی مشاورت کے بعد سابق صدر کی نماز جنازہ کا وقت نماز ظہر کے بعد مقرر کیا گیا اور پولو گراؤنڈ میں داخلے کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا۔
نماز جنازہ سے قبل اس میں شرکت کرنے والے افراد کو سروس کارڈ یا شناختی کارڈ لازمی ساتھ رکھنے کی ہدایت کی گئی، اور موبائل فون سمیت کسی بھی قسم کے برقی آلات ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
سابق صدر کی میت کو آفیسرز میس منتقل کیا گیا جہاں ان کا آخری دیدار کیا گیا۔ سخت سکیورٹی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی میت کو گیریژن پولو گراؤنڈ میں ایمبولینس کے ذریعے لایا گیا۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوت کو فوجی جوانوں نے سلام پیش کیا۔ نماز جنازہ میں شریک افراد کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کے دیدار کی کوشش نہ کی جائے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔

شیئر: