Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رام مندر کا افتتاح، ’بابری مسجد کے انہدام کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے‘

ایودھیا میں جشن کا سماں ہے اور ہر طرف زعفرانی رنگ نمایاں ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کر دیا گیا ہے اور اس حوالے منعقد کی گئی تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی نے خطاب کیا اور ملک کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
شہر میں جشن کا سماں ہے اور ہر طرف زعفرانی رنگ نمایاں ہے۔
لیکن دوسری جانب ہندو اکثریتی شہر میں بسنے والے پانچ لاکھ کے قریب مسلمان اس خوف میں مبتلا ہیں کہ 1992 کی طرح کہیں دوبارہ مذہبی فسادات نہ پھوٹ پڑیں۔
 امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق بادشاہ خان اسی خوف سے باہر نہیں گئے اور انہوں نے گھر میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ جشن اس بات کی واضح علامت ہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں مسلمان کس طرح پسماندہ ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود کہ ہم اس پر آواز نہیں اٹھا سکتے، بابری مسجد کے انہدام کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے ۔ مندر نئے انڈیا میں مسلمانوں کو ان کا مقام دکھانے کی علامت ہے۔‘
ایک مقامی مذہبی ادارے کے 39 سالہ سربراہ اعظم قادری نے کہا کہ 1992 کے تشدد سے گزرنے والوں کو باہر کے لوگوں کی آمد کا خوف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی لوگ باہر سے آتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے۔ اب کوئی اپنا قیمتی سامان، بچت یا شناختی کاغذات کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کرنا آسان نہیں ہے۔‘
حاجی محبوب، جنہوں نے 1992 کے تشدد کے دوران دو رشتہ داروں کو کھو دیا، نے کہا کہ مقامی مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ پرجوش ہجوم ان کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ مسلمانوں کو ایودھیا سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کریں گے یا ہندو راشٹر (قوم) کا مطالبہ کریں گے۔‘
محبوب نے کہا کہ اب ان کی برادری میں ناامیدی کا احساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے مسلمانوں کا خیال تھا کہ 2019 میں جب سپریم کورٹ نے ہندوؤں کو متنازعہ جگہ پر مندر بنانے کی اجازت دی تو یہ تنازع ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے بجائے ہندوؤں نے ملک بھر میں اور بھی زیادہ مساجد کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، ان کو بھی منہدم کرنے کی مہم چلائی۔‘

ہندو انتہا پسندوں نے 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

’ہندو ہمیں برداشت نہیں کر سکتے، وہ ہمیں دیکھ نہیں سکتے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘
نریندر  مودی 2014 میں ملک کی معیشت میں اصلاحات کرنے اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے عہد کے ساتھ اقتدار میں آئے، لیکن انہوں نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو بھی بہت زیادہ آگے بڑھایا، ایک ایسا نظریہ جس کا خیال ہے کہ انڈیا کو ہندوؤں کی سرزمین بننا چاہیے۔
بہت سی ریاستوں نے قانون سازی کی ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کی جڑیں مضبوط کی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، جس میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو بین المذاہب جوڑوں کے لیے شادی کرنا مشکل بنا دیتے ہیں اور گائے کے ذبح اور نقل و حمل پر پابندی لگاتے ہیں۔
اور نریندر مودی کے اپنے ووٹروں سے اہم وعدوں میں سے ایک مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کرنا تھا، اور وہ امید کر رہے ہیں کہ اس کی تعمیر سے انہیں تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی ملے گی۔
1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بارے میں ایک کتاب ’دی ڈیمولیشن اینڈ دی ورڈکٹ‘ کے مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نے کہا کہ پیر کے تہوار کی صدارت کرنے کا نریندر مودی کا فیصلہ انڈیا میں ہندو بالادستی کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقریب میں نریندر مودی کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ کس طرح ریاست اور مذہب کے درمیان لکیر تیزی سے دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔
مکوپادھیائے نے مزید کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ٹرین میں سفر نہ کریں، اکیلے کاریں نہ چلائیں اور ایسے لباس نہ پہنیں جس سے ان کی شناخت ظاہر ہو۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان نلین کوہلی نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کو پسماندہ نہیں کیا جا رہا ہے، اور یہ کہ رام مندر کا افتتاح ’جشن کا سبب‘ ہے۔

حسن علی نے کہا کہ ’اب لوگوں کے درمیان بہت زیادہ زہر بھر دیا گیا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت کے کاموں، اقدامات اور ترقیاتی ایجنڈے میں کوئی ایک سکیم یا پروگرام بھی نہیں جو انڈین شہریوں کے درمیان مذہب، ذات پات اور علاقے کی بنیاد پر فرق کرتا ہے۔
2019 میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایودھیا کے مسلمانوں کو دھنی پور نامی گاؤں میں رام مندر سے تقریباً 25 کلومیٹر (تقریباً 15 میل) کے فاصلے پر ایک اور مسجد بنانے کے لیے زمین بھی مختص کی تھی۔
سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا کیس لڑنے والے درخواست گزاروں میں سے ایک حاجی محبوب نے کہا کہ ایودھیا کے زیادہ تر مسلمانوں کے لیے اس کی تعمیر جذباتی اثر نہیں رکھتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر انہوں نے بابری مسجد کی جگہ کے قریب مسجد بنانے کی اجازت دی ہوتی تو ہم اپنے آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر سکتے تھے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں ہو رہی۔ تاہم یہ زمین اتنی دور ہے کہ اس پر تعمیر کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ تو ہم کیا کہیں؟‘
دائیں بازو کے وشو ہندو پریشد گروپ کے ترجمان ونود بنسل نے کہا کہ ’مغلوں نے ہمیں بدلنے کی کوشش کی، پھر انگریزوں نے ہمیں بدلنے کی کوشش کی، لیکن رام مندر کا افتتاح دنیا کو دکھاتا ہے کہ ہماری ہندو روایات، طریقے اور عقائد اب بھی برقرار ہیں۔‘
حسن علی کو فرقہ وارانہ فالٹ لائنز واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ وہ محض نو سال کے تھے جب انہوں نے 1992 کے تشدد سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک مقامی پولیس سٹیشن میں دو راتیں گزاریں۔
انہوں نے کہا کہ ’1992 میں مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بہت سی کہانیاں تھیں۔ تاہم اب لوگوں کے درمیان بہت زیادہ زہر بھر دیا گیا ہے۔ اب کوئی نہیں بتا سکتا۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ لوگوں کے دلوں میں کیا ہے۔‘

شیئر: