نواز دور میں والد کی زبان کاٹی گئی، ساتھ چلنا ناممکن ہے: بلاول بھٹو
بلاول بھٹو نے سیاست کے علاوہ ذاتی زندگی کے پہلوؤں پر بھی بات کی (فوٹو: سکرین شاٹ)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کر چلنا ناممکن ہے ان کے دور میں میرے والد کا گلا اور زبان کاٹی گئی کہ وہ سوئس کیسز مان جائیں۔
منگل کو ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹی سی ایم‘ کے ساتھ ایک پوڈکاسٹ میں بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ن کی وجہ سے آصف علی زرداری کو ساڑھے 12 سال جیل میں ڈالا گیا۔‘
’اسی دور کے کیسز کی بنا پر پرویز مشرف اور عمران خان کے ادوار میں بھی ان کو جیل جانا پڑا۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ان کا خیال ہے کہ وہ ویسے ہی بن چکے ہیں ان کی بات ہو گئی جہاں ہونا تھی اور اب عوام کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے اور وہ صرف اس کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ عوام کی توہین کے مترادف ہے۔‘
عمران خان کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ غیرجمہوری قوتوں کے بل پر حکومت میں لائے گئے جس کا مقصد جمہوری اتفاق رائے کو توڑنا تھا۔
انہوں نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی اور نوجوانوں کو ایک دوسرے کے خلاف سخت راستہ اپنانا کی تربیت دی۔
بلاول بھٹو نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت اسمبلی میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا تھا اور احترام سے بات سنی جاتی تھی اور اس طریقہ کار کو عمران خان نے مک مکا قرار دیا حالانکہ وہ جمہوری رویہ تھا۔
’ہمیں غلط کانسپٹ دیا گیا ہے کہ سیاست دان کو صرف لڑنا چاہیے یعنی جو زیادہ گالی دے گا وہ زیادہ سچا ہو گا۔‘
ہمیں چارٹر آف ڈیموکریسی پر چلنا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے سیاسی مباحثے کے لیے نواز شریف کو کیوں چیلنج کیا مریم نواز کو کیوں نہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کے امیدوار ہیں اور میں بھی اپنی پارٹی کی جانب سے اسی عہدے کا امیدوار ہوں اس لیے بات انہی سے بنتی ہے۔
پاڈ کاسٹ میں ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بات چیت ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسے کے دھماکے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت میں دبئی میں تھا اور والد اور بہنوں کے ساتھ موجود تھا۔
’والدہ نے فون کر کے والد کو پاکستان آنے کا کہا تھا اور ہم اسی پر بات کر رہے تھے کہ ٹی وی پر جلسے میں دھماکے کی خبر چلی۔‘
’اس وقت بھی وہ مناظر میری آنکھوں کے سامنے آ رہے ہیں، میں نے اسی وقت رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔’
انہوں نے کہا کہ یہ سخت وقت تھا، ہمارا خاندان بہت مشکلات سے گزرا۔
اس سانحے کے ان پر نفسیاتی اثرات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹراما سے گزرنا پڑا حالانکہ والدہ کہتی تھیں کہ پہلے تعلیم مکمل کرنی ہے، جاب کرنی ہے اور پھر شادی کے بعد سیاست میں آنا ہو تو آ جانا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ٹراما کے لیے کوئی کاؤنسلنگ کروائی؟
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان میں ایسا تصور موجود نہیں اس لیے میں بھی اسی طرف نہیں گیا اور 10 سال کے بعد اس کا احساس ہوا کہ میں شدید ڈپریشن سے گزرا تھا۔